ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
حدیث میں ہے کہ جب عرفہ کا دن ہوتا ہے توحق تعالیٰ شانہ سب سے نیچے آسمان پر اُتر کر فرشتوں سے فخر کے طورپر فرماتے ہیں کہ میرے بندوں کو دیکھو کہ میرے پاس ایسی حالت میں آئے ہیں کہ سر کے بال بکھرے ہوئے ہیں ، بدن پر اور کپڑوں پر سفر کی وجہ سے غبار پڑا ہوا ہے ، لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ کا شور ہے ، دُور دُور سے چل کر آئے ہیں ، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اِن کے گناہ معاف کردیے، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ یا اللہ فلاں شخص گناہوں کی طرف منسوب ہے، اور فلاں مرد اور فلاں عورت (تو بس کیا کہاجائے )حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہوتا ہے کہ میں نے ان سب کی مغفرت کردی، حضور ۖ فرماتے ہیں کہ اس دن سے زیادہ کسی دن بھی لوگ جہنم کی آگ سے آزاد نہیں ہوتے ۔ (مشکٰوة ) ایک اورحدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں : یہ میرے بندے بکھرے ہوئے بالوں والے میرے پاس آئے ہیں، میری رحمت کے اُمیدوار ہیں(اسکے بعد بندوں سے خطاب فرماتے ہیں) اگر تمہارے گناہ ریت کے ذرّوں کے برابر ہوں اور آسمان کی بارش کے قطروں کے برابر ہوں اور تمام دُنیا کے درختوں کے برابر ہوں ، تب بھی بخش دیے جائو گے ، اب بخشے بخشائے اپنے گھر چلے جائو اور ایک اور حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ فخر کے طورپر فرشتوں سے فرماتے ہیں: دیکھو میں نے ان بندوں کی طرف اپنا رسول بھیجا، یہ اُس پر ایمان لائے ، میں نے اُن پر کتاب نازل کی،یہ اُس پر ایمان لائے ،تم گواہ رہو کہ میں نے اِن کے سارے گناہ معاف کردیے ۔ (کنز العمال) غرض بہت کثرت سے روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، ان ہی جیسی احادیث کی بناء پر بعض علماء نے کہا ہے کہ حج کی معانی صغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص نہیں ،کبیرہ گناہ بھی اس سے معاف ہوجاتے ہیں ، وہ بااختیار بادشاہ ہے، اُس کی نافرمانیوں کا نام گناہ ہے، وہ کسی آدمی کی یا کسی جماعت کو اپنے فضل سے بالکل ہی معاف کردے تو نہ اُس کے لطف وکرم سے بعید ہے نہ کسی دوسرے کا اِس میں اجارہ ہے۔