ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
چوتھی قسم : وہ لوگ جن کا نصف سے کم مال حرام کے ذریعہ سے کمایا ہوا ہے اور تمہیں معلوم بھی ہے کہ زیادہ مقدار کسب ِحلال ہی کی ہے مثلاً دو ذریعہ تو حلال کے ہیں ایک یہ کہ وہ کوئی مشروع تجارت کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ ترکہ میں کچھ جائیدادپائے ہوئے ہے جس کی آمدنی اس کو ملتی ہے اور ایک ذریعہ حرام ہے مثلاً کسی ظالم بادشاہ کا نوکر ہے اور تنخواہ لیتا ہے مگر اس کے ایک ذریعہ کی نسبت ان دو ذریعوں کی آمدنی زیادہ ہے تو چونکہ اس کے پاس زیادہ مال حلال ہے اس لیے کثرت کااعتبار کیا جائیگا اور اس کے دیے ہوئے مال کو حلال ہی سمجھاجائے گا البتہ اس سے پرہیز کرنا تقوی میں شمار ہوگا۔ پانچویں قسم : وہ لوگ ہیں جن کے کسب کا ذریعہ اگرچہ معلوم نہیں ہے مگر ظلم و تعدی کی علامتیں ان پر نمایاں ہیں مثلاً جابر حکام کی سی شکل و لباس اور وضع اختیار کیے ہوئے ہیں توچونکہ یہ ظاہری حالت یوں بتارہی ہے کہ ان کا مال بھی ظلمًا ہی حاصل ہواہوگا لہٰذا اس سے احتیاط کرنی چاہیے اور اس کو تفتیش کیے بغیر حلال نہ سمجھو۔ چھٹی قسم : وہ لوگ ہیں جن پر علامت ِظلم تو کوئی نمودار نہیں ہے البتہ فسق و فجور(گناہ گاری ڈھکی چھپی فسق اور کھلم کھلا فجور ہے)کے آثار نمایاں ہیں مثلاً داڑھی منڈی ہوئی ہے یا مونچھیں بڑی ہوئی ہیں یا فحش بک رہا اور گالیاں دے رہا ہے یااجنبی عورت کی طرف دیکھ رہا ہے یا اس سے باتیں کررہا ہے تواگرچہ یہ فعل سب حرام ہیں مگر مال کے حاصل کرنے میں چونکہ ان کو کچھ دخل نہیں ہے لہٰذا مال کو حرام نہیں سمجھا جائے گا پس اگر تم کو معلوم ہو کہ یہ مال اس نے ترکہ پدری میں پایا ہے یا کسی حلال ذریعہ سے کمایا ہے تو اس کو حلال سمجھو۔ دیکھو جناب رسول اللہ ۖ نے مشرک کے پانی کو نجس نہیں سمجھا پس جب مجوسیت (آتش پرستی)اورنصرانیت (عیسائیت)کے سبب پانی مشتبہ یا ناپاک نہیں ہواتو مسلمان کا مال محض اُس کے فسق و فجور کی وجہ سے کیسے ناپاک ہوسکتا ہے البتہ اگر اُس کے مال کا حلال ذریعہ کسب بھی تم کو معلوم نہ ہوتوایسی صورت میں اُس مال کے استعمال میں تامل اور احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔