فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
البقیہ البقیہ اے خدیو تا نہ گردد شادِ کلّی جانِ دیو ارشاد فرمایا کہ جب پورا شہر تباہ ہوجائے اور صرف ایک دیوار رہ جائے تو کیا حسرت ہوتی ہے۔ مولانا رُومی کتنے پیارے آدمی ہیں!کس ندامت وفنائیت ودرد سے دُعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا! اب تو بچالیجیے، اب تو بچالیجیے، ہمارے دین کے تباہ شدہ شہر کی جو ایک دیوار باقی رہ گئی ہے، اس کو تو نہ گرنے دیجیے ورنہ تو ہم بالکل ہی تباہ ہوجائیں گے۔ ہماری نالائقیوں کے باوجود محض اپنے کرم سے اس دیوار کے سہارے کچھ تو اب شہرِ محبت میں ہمیں زندہ رہنے دیجیے، ورنہ اگر یہ سہارا بھی گر گیا تو ہمارا کہیں ٹھکانہ نہ ہوگا۔ یعنی جو تھوڑا سا دین رہ گیا ہے یہ ظالم شیطان چاہتا ہے کہ اس کو بھی گناہ کراکے ہم سے چھین لے، لہٰذا ہمارے لباسِ دین کا جو ایک تار بچا ہے اور شہرِ دین کی جو ایک دیوار بچی ہے اس کو بچالیجیے، ورنہ شیطان پورے طور سے خوش ہوجائے گا، لہٰذا اے اللہ! اپنے دشمن کو خوش نہ ہونے دیجیے اور ہماری نالائقیوں کی وجہ سے ہمیں اس کے حوالے نہ کیجیے۔آہ ! جس طرح ایک بدوی نے روضۂ مبارک پر دُعا مانگی تھی۔ بعض وقت اللہ تعالیٰ دیہاتیوں کے دل میں ایسا مضمون عطا فرماتے ہیں کہ علماء عش عش کرتے ہیں۔ ایک دیہاتی روضۂ مبارک پرحاضر ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے اللہ! اگر تو نے مجھے معاف کردیا اور میرے گناہوں کو بخش دیا تو تیرا محبوب جو یہاں آرام فرما ہے خوش ہوجائے گا اور تیرا دشمن غمگین ہوجائے گا، اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو تیرا دشمن خوش ہوجائے گا اور تیرا محبوب غمگین ہوجائے گا، لہٰذا اب تو خود فیصلہ کرلے کہ تجھے اپنے محبوب کو خوش کرنا پسند ہے یا اپنے دشمن کو خوش کرنا پسند ہے۔ آہ! کیا مضمونِ دُعا ہے۔لہٰذا اے اللہ! ہمیں مکمل تباہی سے بچالیجیے اور ہمارے دین وتقویٰ کی بقیہ دیوار کو نہ گرنے دیجیے،اس کو سنوار دیجیے اور آفت زدہ علاقے کی جب ایک دیوار کو شاہ سنوارتا ہے تو پورا شہر پھر سے آباد کردیتا ہے۔ اے اللہ!آپ تو شاہوں کے شاہ ہیں، سلطان السلاطین ہیں، ہمارا شہرِ دین آباد کرنا آپ کے لیے کیا مشکل ہے۔ پس ------------------------------