فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ؎ کسی کے دو شعر کیا خوب ہیں جو حضرت والا کے مقامِ عشق اور دردِ محبت کی انفرادی شان کے ترجمان ہیں ؎ ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم میں حیرت وحسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم راقم الحروف عرض رسا ہے کہ الحمد للہ تعالیٰ! حضرت والا سراپا محبت ہیں، عشق کا سمندر ہیں ، نہ جانے کتنے دریائے محبت حضرتِ اقدس کے سینۂ مبارک میں موجزن ہیں، لیکن ہم جیسے کور باطن اس کا کیا ادراک کرسکتے ہیں۔ درحقیقت حضرت والا دامت برکاتہم مولانا رُومی کے اس شعر کے مصداق ہیں ؎ ہر کسے از ظنِ خود شد یارِ من و اندرونِ من نہ جست اسرارِ من ترجمہ: ہر شخص اپنے گمان کے مطابق میرا دوست بنا ہوا ہے، لیکن میرے دل کے رازِ محبت سے کوئی واقف نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو وہ نظر عطا فرمائے جو حضرت والا کو پہچان سکے ؎ ترے صدقہ میں اسے چشمِ بصیرت ہو عطا آہ عشرت نے بھی اب تک تجھے پہچانا نہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت والا کی صحیح معنوں میں قدر کی توفیق عطا فرمائے اورصحیح معنوں میں استفادہ کی توفیق دے اور حضرت کا سایۂ عاطفت ایک سو بیس سال تک مع صحت وعافیت ودین کی عظیم الشان وبے مثال خدمت اور شرفِ قبولیت کے ہمارے سروں پر قائم رکھے، آمین ثم آمین۔ ------------------------------