فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
حاصل نہیں، لہٰذا جو فیصلے میرے حق میں بُرے ہیں ان کو اچھے فیصلوں سے تبدیل فرمادیجیے۔ کیوں کہ آپ کا کوئی فیصلہ بُرا نہیں ہے کہ وہ تو عینِ عدل وانصاف اور عینِ حکمت ہے، لیکن میری شامتِ عمل سے کیوں کہ وہ میرے حق میں برا ہے، اس لیے اس کو بدل دیجیے تاکہ میں تباہی وہلاکت سے بچ جاؤں، جیسے عادل جج کسی مجرم کو پھانسی کا حکم سناتا ہے تو فی نفسہٖ یہ فیصلہ بُرا نہیں کیوں کہ عدل وانصاف پرمبنی ہے، لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ اس کے جرائم کی وجہ سے ہوا ہے اس مجرم کے لیے بُرا ہے۔ اسی لیے حضرت حکیم الاُمت تھانوی نے فرمایا کہ یہاں سوء کی نسبت قاضی کی طرف نہیں مقضی کی طرف ہے، یعنی بُرائی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہے بلکہ جس کے خلاف وہ فیصلہ ہے اس کی طرف ہے، فیصلہ بُرا نہیں لیکن جس کے خلاف ہے اس کے لیے بُرا ہے اور جس طرح جب مجرم عدلیہ سے مایوس ہوجاتا ہے تو بادشاہِ وقت یا صدر مملکت سے رحم کی اپیل کرتا ہے، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو یہ دُعا تعلیم فرمادی کہ سوءِقضا سے حفاظت مانگ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی تقدیریں بدلو الو کہ عدل کے اعتبار سے تو ہم مستحقِ سزا ہیں، لیکن آپ سے آپ کے فضل اور آپ کے مراحم خسروانہ سے رحم کی بھیک مانگتے ہیں کہ ہماری بُری تقدیر کو محض اپنے رحمِ شاہی کے صدقے میں اچھی تقدیر سے بدل دیجیے۔ مولانا کا یہ شعر بھی سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیثِ پاک سے مستنیر ہے۔ اگلے مصرع میں مولانا حق تعالیٰ سے فریاد کررہے ہیں کہ اے خدا! ہمیں اپنے خاص بندوں سے الگ نہ فرمائیے ۔ سوال ہوتا ہے کہ سوءِقضا سے پناہ مانگ کر مولانا عباد صالحین سے الگ نہ ہونے کی درخواست کیوں کررہے ہیں؟ اس لیے کہ اہل اللہ کی رفاقت اور ان سے محبتِ للّٰہی سوءِ قضا سے حفاظت کا ذریعہ ہے، کیوں کہ وَ امۡتَازُوا الۡیَوۡمَ اَیُّہَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ؎ کا خطاب ان ہی کو سننا پڑے گا جو قلباً وقالباً واعتقاداً عبادِ صالحین سے نہ ہوں گے ، وہی مجرمین ہوں گے ۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام ------------------------------