فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
خم کہ از دریا در او راہے شود پیشِ او جیحونہا زانو زند جس مٹکے کا رابطہ خفیہ طور پر سمندر سے ہوجائے تو اس کے سامنے بڑے بڑے دریائے جیحون وفرات زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں، کیوں کہ ان دریاؤں کا پانی خشک ہوسکتا ہے لیکن اس مٹکے کا پانی کبھی خشک نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کے اندر مخفی راستے سے سمندر کا پانی آرہا ہے۔ پس جس کو کسی صاحبِ نسبت کی صحبت سے اللہ کی محبت حاصل ہوگئی اور اپنے علم پر عمل کی توفیق ہوگئی اس کو علم کی رُوح حاصل ہوگئی، کیوں کہ علم کی رُوح عمل ہے، علم اسی وقت علم ہوتا ہے جب اس پر عمل کی توفیق ہوجائے، ورنہ جس کو اپنے علم پر عمل کی توفیق نہیں وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں، مثلاً غضِ بصر کا حکم معلوم ہوگیا لیکن عمل نہیں کرتا تو اس کو ابھی علم حاصل نہیں ہوا، علم کے صرف نقوش حاصل ہوئے، لیکن جب کوئی حسین شکل سامنے آئی اور غضِ بصر کے حکم کو اس نے اپنی آنکھوں پر نافذ کرلیا تو علم غضِ بصراس کو اب حاصل ہوا۔ معلوم ہوا کہ جو علم مقرون بالعمل نہ ہو علم کہلانے کا مستحق نہیں صرف اضافۂ معلومات اور ذہنی تعیش ہے ؎ علمے کہ رہ بحق نہ نماید جہالت است جو علم اللہ کا راستہ نہ دکھائے یعنی جس علم کے بعد اللہ کا راستہ طے کرنے کی توفیق نہ ہو وہ علم نہیں جہالت ہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ اَیُّھَا الْقَوْمُ الَّذِیْ فِی الْمَدْرسَۃِ کُلُّ مَا حَصَلْتُمُوْہٗ وَسْوَسَۃ اے وہ قوم جو مدرسہ میں تحصیلِ علم میں مصروف ہے جب تک تمہارا علم مقرون بالعمل نہ ہوگا تو یہ تمہارا محض وہم وگمان ہے کہ تمہیں علم حاصل ہوگیا۔