فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
کر آپ نے دراصل اپنے بندوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، آپ نے اپنے غلاموں کو دوستی کی پیشکش کی ہے، ورنہ منی اور حیض سے پیدا ہونے والے ناپاک بندے اتنے عظیم الشان مالک سے دوستی کا تصور کرنے کی بھی مجال نہیں کرسکتے تھے، کیوں کہ دوستی کے لیے کوئی تو قدر مشترک ہونی چاہیے اور آپ کا اے خدا! کوئی مثل اور ہمسر نہیں۔ کہاں خالق کہاں مخلوق، کہاں آپ قدیم اور واجب الوجود اور کہاں ہم حادث وفانی ؎ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک ہم تو آپ کی دوستی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، لیکن آپ نے دوستی کی پیشکش فرما کر کرم کے دریا بہادیے اور نا اُمیدیوں کے اندھیروں میں اُمید کا آفتاب طلوع فرمادیا کہ بس تقویٰ کو شرطِ ولایت ٹھہرایا اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ،؎ اسی لیے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ؎ کا عاشقانہ ترجمہ دلالتِ التزامی سے یہی ہے کہ اے ایمان والو! تم ہمارے دوست بن جاؤ، لہٰذا تقویٰ کا حکم بھی آپ کی عظیم الشان رحمت ہے۔ چوں دعا ما امر کردی اے عجاب ایں دعائے خویش راکن مستجاب اے ہمارے بے مثل رب! جب آپ نے خود ہم کو دُعا مانگنے کا حکم فرمایا ہے تو یہ دلیل ہے کہ آپ ہماری دُعاؤں کو قبول فرمانا چاہتے ہیں، کیوں کہ شاہ جب کسی چیز کو مانگنے کا حکم دے تو یہ دلیل ہے کہ وہ عطا کرنا چاہتا ہے اور باپ جب بچے سے کہتا ہے معافی مانگ تو یہ دلیل ہے کہ وہ معاف کرنا چاہتا ہے۔ پس حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دُعا آپ کو مطلوب ہے اور آپ کی رحمتِ واسعہ سے بعید ہے کہ اپنی مطلوب کو آپ رد فرمادیں ۔ پس ہماری دُعاؤں کو اے کریم! قبول فرمالیجیے۔ ------------------------------