فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
اس لیے مولانا رُومی دُعا کررہے ہیں کہ اے اللہ! جس کام میں آپ کو استقامت پسند ہے اس میں میرے نفس کو استقامت نصیب فرمائیے کیوں کہ نفس اپنی فطرت کے اعتبار سے کَثِیْرُ الْاَمْرِ بِالسُّوْءِہے لہٰذا اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ؎ کا سایۂ رحمت ہمارے اُوپر ڈال دیجیے جو استقامت کا ضامن ہے۔ اندراں کارے کہ دارد آں ثبات قائمی دہ نفس را بخشش حیات جو کام اپنے اندر ثباتِ قدمی اور استقامت کو مقتضی ہیں یعنی جن کاموں میں آپ استقامت کو پسند فرماتے ہیں ان میں ہم کو استقامت عطا فرمادیجیے اور ہمیں حیاتِ ایمانی بخش دیجیے۔ استقامت فی الدین کی برکت سے ہم سب کو حقیقی حیات نصیب فرمادیجیے۔ یعنی اے اللہ! ہمیں اپنے دوستوں کی حیات نصیب فرمادیجیے، دین پر ثبات قدمی واستقامت عطا فرمادیجیے، کیوں کہ اگر نفس میں استقامت نہیں، اور دین پر وہ قائم نہیں رہتا مثلاً حرام لذّت کو چرالیتا ہے تو حیات سے محروم ہوجاتا ہے، اس کی زندگی مثل جانور کے ہوجاتی ہے۔ صبرِ ماں بخش و کفہ میزاں گراں وار ہاں ماں از دمِ صورت گراں اے اللہ! آپ ہم کو صبر عطا فرمائیے یعنی گناہوں کے تقاضوں کے وقت گناہوں کی لذّت سے بچنے کی تکلیف پر صبر عطا فرمائیے کہ چاہے گناہ کا کتنا ہی تقاضا ہو لیکن ہمیں ایسی توفیق دے دیجیے کہ چاہے جان نکل جائے لیکن گناہ کرکے ہم آپ کو ناراض نہ کریں اور قیامت کے دن ہمارے ترازو کے پلڑے کو بھاری کردیجیے یعنی نیکیاں زیادہ کردیجیے تاکہ ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے۔ وَ اَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ؎ نہ ہو فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ؎ ہو، اور چوں کہ صبر پر اجر بہت زیادہ ہے اس لیے مولانا نے اس کا تعلق کفہ میزان سے جوڑ دیا کہ صبر کی توفیق عطا فرما کر اور اس کو قبول فرما کر میزانِ اعمال میں نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کردیجیے۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہاں ------------------------------