فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
اے خدا! وہ دل جو آپ کا راستہ بھولا ہوا ہے اور حیران وپریشان ہے، راستہ نہیں پارہا ہے، گناہوں کے بُرے بُرے تقاضوں میں غلطاں وپیچاں ہے آپ اس کو تدبیر یعنی ہدایت استقامت کی عطا فرمادیجیے کہ یہ دل آپ کی طرف مستقیم رہے، نوّے ڈگری سے ہر وقت آپ کی طرف متوجہ رہے ، ذرّہ برابر بھی اِدھر اُدھر نہ ہو اور اگر ہوجائے تو پھر توبہ واستغفار سے آپ کی طرف رُخ صحیح کرلے۔ ایک تو ہم عاجز ہیں دوسرے ہر وقت حالتِ امتحان میں ہیں ، بالغ ہونے سے لے کرموت تک ہر وقت ہمارا امتحان ہورہا ہے ، کبھی نظر کا امتحان ہورہا ہے کہ دیکھو نظر بچاتا ہے یا نہیں ، کبھی کان کا امتحان ہورہا ہے کہ گانا تو نہیں سن رہا ہے، کبھی زبان کا امتحان ہورہا ہے کہ حرام تو نہیں کھارہا ہے، کبھی ہونٹوں کا امتحان ہورہا ہے کہ حرام بو سے تو نہیں لے رہا ہے، غرض ہماری کوئی سانس ایسی نہیں ہے جس میں ہم حالتِ امتحان میں نہ ہوں، کبھی شیطان کہہ رہا ہے کہ تم بڑے آدمی ہو، بہت بزرگ آدمی ہو تمہارا کیا کہنا، تم بہت باعزت اور وی آئی پی ہو۔ ایسے وقت میں اے اللہ! آپ ہمیں توفیق دیجیے کہ ہم شیطان سے کہہ دیں کہ جب تک موت نہ آئے اور ایمان پر خاتمہ نہ ہوجائے اور قیامت کے دن اللہ ناراض نہ ہو اس وقت تک ہماری کوئی قیمت نہیں ہے۔قیمت تو اللہ لگائے گا، غلام کی قیمت تو مالک لگائے گا۔ اگر ساری دنیا تعریف کرے تو اس سے ہمارا کچھ فائدہ نہیں۔ آہ ! یہی باتیں علمائے ظاہر کی سمجھ میں نہیں آتیں اور ان کے دل میں نہیں اُترتیں کہ صاحب! ہم کیوں نہ قیمت لگائیں ۔ ہم بخاری شریف پڑھاتے ہیں، یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں۔یہ باتیں صرف اللہ والوں کی جوتیاں اُٹھانے سے سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک صاحب نے حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ میں ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچا جو میں چاہتا ہوں اور میرے اندر وہ حالت پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے۔ حکیم الاُمت نے فرمایا: جس دن آپ نے یہ سمجھ لیا کہ میں اس مقام تک پہنچ گیا وہ مقام نہایت ہی رونے کا مقام ہوگا اور وہ دن بہت ہی غم کا دن ہوگا۔ بس یہی سمجھو کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں ؎