میں نے خوب تعریف کی حامد کی حمید کے ساتھ، اس کے شکر کی رعایت میں ایک لمبے زمانہ تک۔
اٹھارہواں سبق
حال وہ اسم ہے جو فاعل کی یا مفعول بہ کی یا دونوں کی صورتِ حال بیان کرے۔2 جیسے: جَائَ سَلِیْمٌ رَاکِبًا، ضَرَبْتُ زَیْدًا مَشْدُوْدًا، لَقِیْتُ زَیْدًا رَاکِبَیْنِ۔ اور فاعل ومفعول کو جن کی حالت بیان کی گئی ہے ذو الحال کہتے ہیں۔
قاعدہ: ذو الحال اکثر معرفہ اور حال نکرہ ہوتا ہے اور اکثر مفرد ہوتا ہے۔
قاعدہ: اگر ذو الحال نکرہ ہو تو حال کو مقدم کرنا واجب ہے۔ جیسے: لَقِیْتُ رَاکِبًا رَجُلًا۔
قاعدہ: حال کبھی جملہ اسمیہ اور کبھی جملہ فعلیہ بھی ہوتا ہے۔ جیسے: لَقِیْتُ حَمِیْدًا وَہُوَ جَالِسٌ، جَائَ یَحْیٰی یَسْعٰی۔3
انیسواں سبق
تمیز وہ اسم ہے جو کسی مبہم چیز کی پوشیدگی کو دور کرے۔ جیسے: رَأَیْتُ أَحَدَ1 عَشَرَ کَوْکَبًا اس میں کوکبًا نے أَحَدَ عَشَرَ کے ابہام کو دور کیا ہے۔ اور تمیز جس اسم کے ابہام کو دور کرتی ہے اس کو ممیز کہتے ہیں۔
قاعدہ: تمیز، عدد، وزن، پیمانہ اور پیمایش کے ابہام کو دور کرتی ہے، جیسے: رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا، اشْتَرَیْتُ کِیْلُوْ سَمْناً، بِعْتُ قَفِیْزَیْنِ بُرًّا، وَہَبْتُ جَرِیْبَیْنِ أَرْضًا (میں نے دو بیگے زمین بخشی)۔