ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
قسط : ٢ ،آخری چو دہویں صدی کا شیخ الحدیث شیخ الا سلام حضرت مولانا سیّد حسین اَحمد مدنی نور اللہ مر قدہ کے منہجِ تد ریس پر ایک یاد گار اور نایاب تحریر ( حضرت مولانا محمد قاسم علی صاحب بجنوری،اِنڈیا ) رعایت ِ آداب علومِ نبویہ : علومِ نبویہ کی فضیلت کے سلسلہ میں قرآنِ حکیم میں متعدد آیات ہیں : قال اللّٰہ تعالٰی : ( یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ) قال اللّٰہ تعالٰی : ( قُلْ ھَل یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِ یْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ) اَحادیث ِ مبارکہ میں بھی فرمایا گیاہے : قَالَ النَّبِیُّ ۖ اَلْعُلَمَائُ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَائِ ۔ قَالَ النَّبِیُّ ۖ یَشْفَعُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثَلٰثَة : اَلْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْعُلَمَآئُ ثُمَّ الشُّھَدَآئُ ۔ آثارِ صحابہ میں بھی اِس مضمون کوبیان فرمایا گیا ہے قال علی بن ابی طالب کرم اللّٰہ وجھہ اَلْعِلْمُ مِیْرَاثُ الْاَنْبِیَآئَ اور متعدد دلائل اِس پر موجود ہیںلہٰذا اِن علومِ نبویہ کے عظیم الشان آداب ہیں جن کی رعایت کرنا ہرمعلم کو ضروری ہے چنانچہ شیخ الاسلام قدس اللہ سرہ اِن آداب و علوم کی مکمل رعایت فرماتے تھے مختصر طور پر چند چیزیں پیش کی جاتی ہیں ۔ آپ کا مقصد درسِ علوم نبویہ سے شہرت، عزت و جاہ اور اِحترام نہ تھا بلکہ آپ کا مقصد فقط جنابِ باری تعالیٰ کا اِمتثالِ اَمراور خوشنودی تھا نیز آپ چاہتے تھے کہ علومِ نبویہ کی نشرو اِشاعت اَعلیٰ پیمانے پر ہو تا کہ اُمت میں علماء زیادہ تعداد میں پیدا ہوں، اُمت میں سے جہلاء کی تعداد کم ہو، اللہ