ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
کو ختم کر دیتا ہے بالفاظِ دیگر زندگی کا ورق لپیٹتے ہوئے جب اُس کے اِختیارات ختم ہونے لگتے ہیں تواِسلام آگے بڑھ کرتقسیمِ دولت کا عمل خود کرتا ہے اَلبتہ غیروں میں نہیں بلکہ خود اُسی کے عزیز و اَقارب میں اُس کے پارچے اور قاشیں تقسیم کر دیتاہے۔ لازمی تقسیم : زندگی میں لازمی تقسیم وہ زکوة ہے جو دولت مندپر ہر سال اِسی طرح لازمی ہوتی ہے کہ جیسے ہی سال کے آخری دِن کی شام ہوتی ہے دولت کایہ حصہ اُس کی مِلک سے نکل کر ضرورت مندکا حق بن جاتا ہے، یہ حصہ اُس کا نہیں رہتااگر اِس میں تصرف کرتا ہے تو وہ دُوسرے کے حصہ میں تصرف کر رہا ہے اور اِس کی آمیزش سے اپنے پورے مال کو ناپاک کر رہاہے یہ حصہ اُس کی مِلک سے اِس درجہ خارج ہو گیا کہ اگر وہ کسی مصلحت یاحماقت سے پورے مال کو دریا میں غرق کردے یاکسی اور طرح تباہ کردے تو زکوة کا حصہ اُس پر پھر بھی واجب الادا ء رہے گا کیونکہ یہ حصہ اُس کا نہیں رہا تھا اِس حصہ کو تباہ کر کے اُس نے دُوسرے کا حق تباہ کیا ہے۔ جذبہ ٔ دولتمندی اور سرمایہ داری کااِستیصال : جس کو ہم دولت سمجھتے ہیں ابھی اُس کا وجود بھی نہیں ہوتا کہ اِسلام دولت مندی کے مطالبات اُس پر لازم کر دیتا ہے۔ اگر چون تولہ چاندی کسی کے پاس ہے تو عرف اور محاورہ میں اُس کو دولتمند نہیں کہاجاتا مگراِسلام اُس کو دولتمند قرار دیتاہے اور اُس پر وہ مطالبہ عائد کردیتا ہے جو دولتمند پر عائد ہوتاہے۔ اگر رمضان شریف کی تیس تاریخ کو کسی کے پاس چون تولہ چاندی اُس کی ضروریات سے فاضل ہے تو اگلی صبح کو جس طرح بڑے مالدار پر صدقہ ٔ فطر واجب ہے اِس پر بھی صدقہ ٔ فطر واجب ہے کہ اپنی اور اپنے متعلقین کی طرف سے جن کی پر ورش اِس کے ذمہ ہے فی کس پونے دو سیر گیہوں یا اُتنے گیہوں کی قیمت ضرورت مند کو دے۔ بقر عید کے موقع پر ایک قربانی واجب ہوجاتی ہے اور جب سال ختم ہوگا تو اُس کا چالیسواں حصہ اَدا کرنا ہوگا ،جیسے جیسے دولت بڑھتی رہے گی زکوة کی رقم بھی بڑھتی