ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
مردُود و ملعون ہے۔ بیوی : بیوی سے صحبت کرنا بے شک قابلِ ثواب ہے لیکن حیض کے دنوں میں یہی صحبت حرام ہو جاتی ہے ( وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ ط قُلْ ھُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ)بیوی سے محبت کرنا اور اُس کے حقوق اَداکرنا یقینا ثواب ہے لیکن جب تک اللہ کی طرف سے اِس کی اِجازت نہ ہو،حضرت حنظلہ بیوی سے پہلی رات کی ملاقات میں مصروف ہیں لیکن جہاد کی منادی کی آواز سن کر بیوی کے پاس سے جدا ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس اب ہماری اور تمہاری محبت ختم، اب اللہ کی طرف سے اِجازت نہیں تو(بیوی سے محبت )صرف اِس بنا ء پر ہے کہ اللہ نے اُن کی دلداری اور دلجوئی کاحکم دیا ہے ۔ (وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) اِسی طرح بیوی بچوں کی پر ورش اِس بناء پر کی جائے کہ اَحکم الحاکمین کی طرف سے اُس پر ذمہ داری ہے، عورت اپنے خاوند کی اِطاعت صرف اِس بناء پر کرے کہ اللہ نے خاوند کو عورت پرحاکم بنایا ہے (اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ) سود، جوا، چوری، رشوت، حرام خوری،زنا، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، شراب خوری وغیرہ اِس لیے قابلِ ترک ہیں کہ اللہ نے اِن کوچھوڑنے کا حکم فرمایاہے (اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) اور جب مسلمان نے اِن معنوں کو سمجھتے ہوئے لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا دل اور زبان سے اِقرار کیا تو اُس پر لازم آتا ہے کہ اپنی آزادی اور خود مختاری کو خاک میں ملا دے، اپنی خواہشات ِ نفسانی کو اللہ کے حکم کے مقابلہ میں ٹھکرا دے اور اللہ کا بندہ بن کر رہے۔ حضور ۖ کا اِرشاد ہے تم مومن نہ ہوگے جب تک تمہاری خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں ۔(مشکوة شریف) جو چیز خدا کے نزدیک پسندیدہ اور اچھی ہو وہی اُس کے نزدیک بھی پسند ہو اور جو چیز خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہو وہی اُس کے نزدیک بُری ہو اور اپنے اَخلاق میں، برتاؤ میں، تمدن اور معاشرت میں کہ تمہارے پاس رہوں اور یہ کہہ کر جہاد میں جا کر شہید ہوجاتے ہیں۔ حضرت اِبراہیم علیہ السلام