ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
''میدانِ جنگ گرم تھا، ایک مجاہد عین معرکہ میں جاں بحق ہو گیا، لوگوں نے کہا درجہ شہادت حاصل کر لیا آنحضرت ۖ نے فرمایا خدا کی قسم غلط ہے میں نے دیکھا ہے یہ عذاب میں مبتلا ہے ایک عباجواِس نے چھپا کر رکھ لیاتھاوہ آتشین پیرہن بنا ہوا ہے اُس کے شعلے اِس کے اُوپر بھڑک رہے ہیں۔'' (اَوکمال قال ) لوگوں نے اُس کا سامان دیکھا تو ایک عبا بر آمد ہوا جو اُس نے غنیمت میں حاصل کیا تھا اور جمع کرنے کے بجائے خود اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ (صحاح) بقدرِ ضرورت کوئی خوردنی چیز تو اِس کے لیے مباح ہے ورنہ علاقہ ٔ جنگ میں جوکچھ اُس کے ہاتھ لگتا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ خزانہ میں جمع کرادے اگر اِس میں کوتاہی کرتاہے تواپنے جہاد کو رائیگاں اور اَکارت کر رہاہے اور عذابِ جہنم اپنے سر لے رہا ہے۔ جو کچھ مالِ غنیمت میں جمع ہوگا اُس کے چار حصے مجاہدین پر تقسیم کردیے جائیں گے اور پانچواں حصہ ''بیت المال'' میں جمع کیا جائے گا اِس کو ''خمس'' کہاجاتا ہے جوعنوانِ مضمون کا معنون ہے۔ جو علاقہ فتح ہوگا اگر اُس کے متعلق محارب قوم سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے تو وہ بھی تقسیم کیا جائے گا جس کی تفصیل ''توسیع بیت المال'' کے تحت میں آگے آئے گی۔ (اِنشاء اللہ) حکومت کو حق ہے کہ کانوں کا اِنتظام خود کرے اِس صورت میں جملہ برآمدات ''بیت المال''کی ہوں گی لیکن اگر سونے چاندی، تانبا، پیتل، لوہے یارانگ کی کان کسی شخص یا کمپنی کو دے دی گئی ہے تو اُن کی پیداوار میں بھی خمس ہوگا یعنی زکوة کی طرح چالیسواں حصہ نہیں بلکہ جو بر آمد ہوگا اُس کا پانچواں حصہ بیت المال کو دیا جائے گا۔ سمندر سے موتی یا عنبر بر آمد کیا جائے تو اِمام اَبو حنیفہ رحمة اللہ علیہ تواُس کو مچھلی کی طرح بر آمد کرنے والے کی مِلک قرار دیتے ہیںاور اُس پر'' خمس'' لازم نہیں کرتے مگراِمام اَبویوسف رحمة اللہ علیہ اُس میں بھی ''خمس '' لازم کرتے ہیں۔ (کتاب الخراج لابی یوسف ص ٢١ و ٧٢) ۔(جاری ہے)