ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
بہر حال بیت المال کی آمدنی ایک مدیہ بھی ہے جس کو ''جزیہ'' کہا جاتا ہے۔ (٨) اَموالِ فاضلہ : معینہ مدات کے علاوہ بیت المال کی متفرق آمدنی کو'' اَموالِ فاضلہ ''کہاجاتا ہے مثلاً کوئی لاوارث مرا، اُس کاترکہ یا بہ جرمِ بغاوت کسی کا مال ضبط کیا گیا تو اُس کا یہ مال بمدِاَموالِ فاضلہ بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ (٩ ) خمس : اِسلام نے جہاں مذہبی معاملات کی اِصلاح کی، جہاد کو بھی مذہب اور دین کاایک جز بنا دیا اور اِس کے قاعدوں اور ضابطوں میں بھی اِصلاحات کیں، جہاد کا مقصد معین کیا کہ : ''راہِ خدا میں خدا کے لیے حق کا بول بالا کرنے کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دینا۔'' جب یہ مقصد ہے تو ایک مجاہد جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ خدا کا ہے اُس کا نہیں ہے ،اُس کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے اُس کو اُس نظام کے حوالے کر دینا چاہیے جو اِس لیے کار فرما ہے کہ خدا کا حکم اور اُس کا مقرر کردہ قانون نافذ کرے۔ جاہلیت کے دورِ قدیم میں نہیں بلکہ تہذیب ِجدید کے موجودہ دور میں بھی فوج کے سپاہی اَخلاقی ذمہ داریوں سے آزاد مانے جاتے ہیں وہ صرف شہر ہی فتح نہیں کرتے بلکہ شہری آبادی کی اِنفرادی مِلکیتیں حتی کہ اُس کی عصمت اور آبرو بھی فتح کر لیتے ہیں، موقع مل جاتاہے تو اُن کی دست درازی خود اپنے شہریوں کو بھی معاف نہیں کرتی، بیسویں صدی کی لڑائیوں کے بے شمار مشاہدات اِس کی شہادت دے رہے ہیں لیکن اِسلام نے جب جہاد کو مذہبی فریضہ قرار دیا تو وہ تمام اَخلاقی پابندیاں بھی لازم کر دیں جن کا مذہب مُعلِّم اور داعی ہوتا ہے یہاں تک کہ مجاہد فی سببیل اللہ اور ''اِیثار شیوہ'' (قربان ہونے والا) شریف وبا اَخلاق مرد ِ مومن ایک ہی مفہوم کی دو تعبیریں ہیں۔خیانت بہت بڑا جرم ہے لیکن اگر مجاہد خیانت کرتا ہے توگویا ایک حاجی اِحرام باندھ کر خانہ کعبہ میں چوری کرتا ہے یہ شرمناک بھی ہے اور موجب ِعتاب بھی۔