ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
کلمہ طیبہ کے دو حصے ہیں : اَوّل لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دُوسرا مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہْ پہلے جزو لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے اِمام غزالی نے کیمیائے سعادت میں یہ معنی لکھے ہیںکہ اللہ کے سوا اپنی طرف سے کسی کوحکم دینے کا اِختیار نہیں یعنی حکم ماننے کے قابل اللہ کے سوا کوئی نہیں بلکہ صرف اللہ ہی کی ذات ایسی ہے جس کی حکومت جس کا قانون جس کے فیصلے تسلیم کیے جائیں، حق تعالیٰ خود اِرشاد فرماتا ہے ( اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ )جب اُس نے پیداکیا ہے توحکومت کرنے کا حق بھی اُسی کو حاصل ہے، اگر بادشاہ کی اِطاعت کی جائے تو محض اِس بنا پر کہ اللہ نے اُس کی اِطاعت کا حکم دیاہے (اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ) تابعداری کرو اللہ اور اللہ کے رسول ۖ کی اور اپنے میں سے اپنے حاکم اور با دشاہ کی۔ اگر ماں باپ کی دلداری اور دل جوئی کی جائے، کلچر اور سیاست میں، اپنی نشست وبرخاست اُٹھنے بیٹھنے سونے اور جاگنے میں غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو میں تو صرف اللہ کی ہدایت کو اور اُس کے اَحکامات کو قبول اور تسلیم کرلے۔ چوں طمع خواہد زمن سلطانِ دیں خاک بر فرقِ قناعت بعد اَزیں نماز : نمازعبادت ہے لیکن جب تک اللہ کے حکم کے ماتحت ہو ورنہ زوال اورغروب کے وقت یہی نماز حرام ہے۔ روزہ : روزہ بے شک بہت بڑی عبادت ہے لیکن جب تک قانون کے ماتحت ہو ورنہ عید کے دن یہی روزہ حرام ہے۔ جہاد : جہاد اَعلیٰ درجہ کی عبادت ہے لیکن جبکہ اللہ کے نام کی سر بلندی کے لیے ہو، ورنہ وہی جہاد