ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
لازمی تقسیم کی دُوسری صورت ''ترکہ کی تقسیم'' : جب ایک مسلمان اِس دارِ فانی سے رَخت ِ سفر باندھنے لگتا ہے اور وقت آتا ہے کہ چارو نا چار اپنے تمام مقبوضات دُوسرے کے حوالے کرے تو وہ ملکیت جس کی حقیقت عاریت تھی اُس کا چولہ خود بخود اُتر جاتا ہے۔ زندگی میں اُس کو ہدایت کی گئی تھی کہ یہ تقسیم کرے اور اَخلاقی کمالات پیدا کرے اَب مالکِ حقیقی خود تقسیم کا ذمہ دار ہوتا ہے، صرف ایک تہائی تک اُس کو اِجازت دی جاتی ہے کہ اپنی صوابدید کے بموجب خرچ کرے، باقی تمام ترکہ میں وہ تقسیم جاری ہوتی ہے جو مالک ِحقیقی نے اِس پختگی کے ساتھ طے کردی ہے کہ کسی کو لب کشائی کی اِجازت بھی نہیں ہے چنانچہ واضح طور پر اِرشاد فرمایا گیا ہے : ''دیکھو تمہارے باپ دادا بھی ہیں اور تمہاری اَولاد بھی، تم نہیں جانتے کہ نفع رسانی کے لحاظ سے کون سا رشتہ تم سے زیادہ نزدیک ہے اور کس کا حق زیادہ ہونا چاہیے اور کس کا کم، اللہ تعالیٰ کی حکمت ہی اِس کا فیصلہ کر سکتی ہے بس۔ اللہ تعالیٰ نے حصے ٹھہرا دیے ہیں اور وہ (اپنے بندوں کی مصلحت کا) جاننے والا (اور اپنے تمام اَحکام میں ) حکمت رکھنے والا ہے۔ ''(سورۂ نساء آیت : ١١) ''(یاد رکھو ! یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی) حدبندیاں ہیں بس جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو اللہ اُسے (اَبدی راحتوں کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ہمیشہ ہمیشہ اُن میں رہے گا اور یہ بڑی ہی کامیابی ہے جو اُسے حاصل ہوگی لیکن جس کسی نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافر مانی کی اور اُس کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے تجاوز کیا تو یاد رکھو اُس کو آگ کے عذاب میں ڈال دیا جائے گا وہ ہمیشہ ایسی حالت میں رہے گا اور اُس کو رُسوا کرنے والا عذاب ہوگا۔'' (سورۂ نساء آیت : ١٣، ١٤) بیت المال اور مداخل و مصارف : سمجھانے کے لیے'' قومی فنڈ'' یا''اسٹیٹ ''کا لفظ بھی بولا جا سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ