ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں پر خرچ کرتا رہے، مقروضوں کے قرض کی اَدائیگی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں مدد کرتا رہے۔ (سورۂ بقرہ آیت : ١٧٧) (٢) کسی کو عبادت گزار نہیں کہا جا سکتا جب تک نماز کی طرح زکوة بھی پابندی سے اَدا نہ کرے، چنانچہ جہاں نماز کاحکم ہے ( اَقِیْمُواالصَّلٰوةَ )ساتھ ساتھ زکوة کا بھی حکم ہے (اٰتُوالزَّکٰوةَ ) (٣) وہ شخص صاحب اِیمان نہیں جس کا پڑوسی بھوکا رہے اور یہ پیٹ بھر لے۔ (حدیث ِ صحیح) (٤) صحیح معنٰی میں پاکباز اور متقی کامل وہ ہے جو اپنا مال اِس غرض سے دیتا ہے کہ اُس کا دل پاک ہوجائے اور نہیں اُس پر کسی کا اِحسان جس کا بدلہ دے، صرف اپنے بلند و بر تر پر ور دگار کی رضا جوئی مقصود ہو۔( سورة اللیل آیت : ١٩، ٢٠ ) زکوة کے علاوہ : اگر فاقہ اور اِفلاس کی وبا ایسی عام ہے کہ زکوة کی پوری پوری رقم اَدا کرنے کے بعد بھی لو گوں کوفاقہ سے نجات نہیں ملتی تو سورہ ٔ بلد کی وہ آیتیں جو صاحب ِدولت کو مضطرب کرنے کے لیے کافی ہیں ملاحظہ ہوں جن کا ترجمہ یہ ہے : ''کیا اِنسان خیال کرتا ہے کہ اُس پرکسی کا بس نہیں چلے گا۔ کہتا ہے میں نے بیشمار دولت خرچ کر ڈالی۔ ١ کیا یہ (اِنسان) سمجھتاہے کہ نہیں دیکھا اُس کو کسی نے ،کیا ہم نے اُس کو دو آنکھیں نہیں دیں، زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے ، اور کیا ہم نے (خیروشر یاکامیابی و ناکامی کے) دونوں راستے اُس کو نہیں بتائے پس وہ اِنسان گھاٹی میں سے ہو کر نہ نکلا (دُشوار راستہ طے نہ کیا) تمہیں معلوم ہے گھاٹی کیا ہے ؟ چھڑانا کسی گردن کا، مقروض کا قرض اَدا کرنا، غلام کو آزادی دلانا یا کھلانا بھوک کے دن کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی خاک میں بسنے والے مسکین (محتاج) کو۔'' ١ یعنی میں نے کھپایا مال ڈھیروں۔ (حضرت شاہ عبد القادر صاحب)