ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
حاصل کرنے کے لیے خدا کے ہاتھ اپنے آپ کو بیع کر چکے تھے( وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتْغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَئُ وْف بِالْعِبَادِ ) ١ جہاد کے مصارف تو دَر کنار جزیہ کی وہ نسبت (تناسب) بھی نہیں جو زکوة کی ہوتی ہے،جس کے پاس دس ہزار درہم (تقریبًا تین ہزار روپے) ہوں اُس کو ٤٨ درہم (تقریبًا بارہ روپے) ٢ سالانہ اَدا کرنے ہوں گے جو جزیہ کی سب سے بڑی مقدار ہے۔ (دُر مختار) دس ہزار در ہم سے زیادہ کتنی ہی دولت اُس کے پاس ہو مگر اُس کو سالانہ اَڑتالیس در ہم ہی اَدا کرنے ہوں گے لیکن مسلمان کو دس ہزار پر ڈھائی سو، بیس ہزار پر پانچ سو، چالیس ہزار پر ایک ہزار اَداکرنے ہوں گے اور جس قدر دولت بڑھتی رہے گی، اُسی تناسب سے زکوة بڑھتی رہے گی۔ (٥) ''زکوة'' بوڑھے، جوان، مرد، عورت، نابینا، اَپاہج، بیمار، تندرست، تارکِ دُنیا یا دُنیا دار ہر مسلمان پر فرض ہے، صرف نصاب کا مالک ہونا اور سال کاگزرنا شرط ہے مگر جزیہ اِن میں سے کسی پر لازم نہیں ہوتا جزیہ چونکہ اُس نصرت اور اِعانت کا تدارک قرار دیا گیا ہے جو بسلسلہ دفاع اُس شخص سے مل سکتی ہے لہٰذا اُسی پر لازم ہوتا ہے جو اپنے بدن سے نصرت اور مدد کر سکتے تھے۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، معذور چونکہ جسمانی طورپر جنگ میں کوئی مدد نہیں کر سکتے لہٰذا اِن پر جزیہ بھی لازم نہیں ہوتا، سیاسیات سے کنارہ کش، تارکِ دُنیا، سادھویا راہب وغیرہ بھی جزیہ سے مستثنیٰ رہیں گئے۔ متوسط درجہ کے لو گوں کا جزیہ اِس سے نصف ہوگا یعنی ٢٤ در ہم سالانہ ( تقریبًا چھ روپے) اور معمولی درجہ کے لوگوں پر صرف بارہ درہم ٣ سالانہ (تقریبًا تین روپے) ۔(کتاب الخراج لابی یوسف ص ١٢٢) ١ سورۂ بقرہ : ٢٠٧ ٢ آج سے تقریبًا پچپن برس پہلے کے حساب کے مطابق۔محمود میاں غفرلہ ٣ بارہ درہم کے بھی صرف دس درہم رہ جائیں گے، اگر وہ چاندی کے بجائے سونے کے (دینار) کی شکل میں اَدا کرے گا۔ (بخاری شریف ص ٤٤٧) شیخ اِبن ہمام رحمة اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے مگر جزیہ کے سلسلہ میں بارہ درہم کا مانا جائے گا، یہ ہے حکومت کی سیر چشمی اور اہلِ مُلک کے حق میں رعایت۔