ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
حقیقت یہ ہے کہ اِسلام اِس عشور کو جس کا دُوسرا نام ''مکس'' بھی ہے پسند نہیں کرتا۔ آنحضرت ۖ کااِرشاد ِ گرامی ہے : لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَکْسٍ مکس وصول کرنے والے کو جنت نصیب نہ ہوگی۔ (اَبو داؤد شریف) حدیث ِماعز میں ہے لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْتَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ(الحدیث) اِسلام کا منشاء یہ ہے کہ تعاونِ باہمی کے اُصول پر آزادانہ اور کھلی تجارت جاری رہے خدا کے بندے مسلمان ہوں یاغیر مسلمان ،ایک ملک اور ایک قوم کے ہوں یااُن کے ملک اور اُن کی قومیں مختلف ہوں ایک دُوسرے کے لیے سہولتیں فراہم کریں، ایک دُوسرے کو نفع پہنچائیں، باہمی روابط اور تعلقات بڑھیں تاکہ اِنسانی اُخوت جلوہ گر ہو، لہٰذا اِسلامی مملکت اپنی طرف سے کوئی ٹیکس نہیں لگائے گی اَلبتہ دُوسرا ملک ٹیکس وصول کرتا ہے توقانونِ اِسلامی (فقہ) کااُصول یہ بھی ہے کہ نقصان کا سدِباب کیاجائے الضرر یُزال لہٰذا اِس حد تک کہ اِسلامی مملکت نقصان نہ اُٹھائے ٹیکس لگایا جائے گا لیکن ایک مسلمان حاکم کو اِس کے وصول کرنے میں کس درجہ اِحتیاط بر تنی چاہیے، صاحب ِ شریعت کا مذکورہ بالا اِرشادِ گرامی اُس کو تنبیہ کر رہا ہے کہ اگر وہ بھی عام اِنسپکٹروں کا طریقہ اِختیار کرتا ہے اور اپنی کسی قسم کی بے اِعتدالی سے اِس تعاونِ باہمی کے سلسلہ بین الاقوامی تجارت کو متاثر کرتا ہے تو دوزخ کا دروازہ اُس کے لیے کھلا ہوا ہے وہ جنت میں نہیں جائے گا،واللہ اعلم۔ شرح : عشور ''عشر'' سے ماخوذ ہے (دسواں حصہ) پس غیر ملکی، غیر مسلم سے دس فیصدی دارُالاسلام کے غیر مسلم سے پانچ فیصدی اور مسلمان سے ڈھائی فیصدی کیونکہ غیر مسلم سے وہ ملکی ہو یاغیر ملکی صرف اُس مال کا ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کو وہ درآمد یا برآمد کررہا ہے اُس کی دُکان پر یاگودام میں جو مال ہے یا اُس کے گھر میں جو زیور یا نقد کی شکل میں سونا چاندی ہے اُس پر کوئی زکوة نہیں ہے اور مسلمان کے تمام مال بلکہ تمام اَثاثہ پر زکوة واجب ہے وہ دُکان میں ہو یا گودام میں یا مکان میں نقد کی شکل میں یا زیور وغیرہ کی شکل میں۔ پس مسلمان سے اُس درآمدی اور برآمدی مال میں اگرچہ ڈھائی فیصد وصول کیا گیاہے مگر چونکہ اُس کو کل مال پر اِس نسبت سے اَدا کرناہوتا ہے تو اُس کا اَوسط غیر مسلم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے مثلاً ایک غیر مسلم کا کل اَثاثہ اگر ایک لاکھ ہے اور اُس نے دو ہزار کا مال