ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
مبہم الفاظ بیت المال کا پورا مفہوم اَدا نہیں کرتے۔ لفظی معنی کے لحاظ سے اگرچہ بیت المال (مال کا کمرہ) اُس مکان کا نام ہے جہاں خلافتِ اِسلامی کا مرکزی خزانہ محفوظ رہتاہو، مگر محاورہ میں اِسلامی حکومت کے پورے مالی نظام کو بھی ''بیت المال'' کہہ دیا جاتاہے یہی عام مفہوم اِس وقت ہمارے پیش ِ نظرہے اور اِسی کی آمدنی اور خرچ کے مدات بیان کرنے مقصود ہیں۔ (١) زکوة (٢) صدقہ ٔ فطر (٣) عشر ۔ یہ تینوں مدمسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں یہ صرف مسلمان سے وصول کیے جائیں گے۔ (غیر مسلم اگر چاہیں تووہ بھی اِس طرح کا نظام قائم کر سکتے ہیں اِسلامی حکومت اُنہیں مجبور نہیں کرے گی) یتیم بچے، ضرورت مند مسلمان مرد اور عورتیں جو صاحب ِ نصاب نہ ہوں ضرورت مندمسافر (اِبن السبیل) اِن کے مصارف ہیں مسلمان طلبہ کے تعلیمی وظیفے بھی اِن مدات سے دیے جاسکتے ہیں۔ (٤) ''اَوقاف'' ہر ایک وقف کی آمدنی کا مصرف وہ ہوگا جو وقف نامہ میں درج ہے، وہ مصرف نہ رہا ہو یا غلط قرار دے دیا گیاہو تو یہ آمدنی بیت المال کے ذریعہ قریب تر یا مناسب تر مد میں صرف کی جائے گی۔ (٥) ''خراج'' وہ مال گزاری (محصول) ہے جوغیر عشری زمینوں سے لیاجاتا ہے ۔کتب ِ فقہ میں عشری اور خراجی زمینوں کی تفصیلات درج ہیں، مجاہد ِ ملت نے بھی'' اِسلام کے اِقتصادی نظام'' میں اِن کی تفصیل کر دی ہے مراجعت کی جائے۔ (٦) ''عشور'' کوسمجھانے کے لیے در آمد برآمد کی ڈیوٹی (کسٹم ڈیوٹی) کہاجا سکتاہے مگر عشور اور کسٹم ڈیوٹی میں بڑا فرق ہے، عشور صرف تجارتی مال پر لیا جاتا ہے ملک کے اَندر نہیں لیا جاتا بلکہ دُوسرے ملک سے در آمد بر آمد پر لیا جاتا ہے۔ نصاب کی جو مقدار ہے یعنی چون تولہ چاندی اِس سے کم قیمت کے مال پر نہیں لیاجاتا بعض صورتوں میں مقروض سے نہیں لیا جاتا، مسلمان اگر زکوة اَدا کر چکا ہے تو اُس سے نہیں لیاجاتا، غیر ملکی سے اُس وقت لیا جاتا ہے جبکہ دُوسرا ملک جس سے در آمد یا بر آمد ہو رہی ہے وہ بھی لیتا ہو، ورنہ نہیں لیا جائے گا۔