ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
یہ بہائم اور در ندوں کی خصلتیں ہیں، دامنِ اِنسانیت اِن گندی خصلتوں سے پاک ہونا چاہیے۔ مقدس مذہب کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اِنسان اِن گندی خصلتوں سے تقدس حاصل کرے، یہ تقدس اِسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ فیض رسانی، نفع بخشی، محبت و شفقت، لطف وکرم کے موتی چمکیں اور تاجِ اِنسانیت کو مرصع کر دیں، قارون جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا پونجی پتی تھا حضرت موسٰی علیہ السلام نے اُس کو خاتمہ ملکیت کا نوٹس نہیں دیا تھاکیونکہ اِس سے نہ کسی بہتر خُلق کی تربیت ہوتی تھی اور نہ بری خصلت کا اِزالہ ہوتا تھا صرف ایک جبرو قہر ہوتا اور ظلم کی ایک مثال دُنیا کے سامنے آتی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اُس کو یہ نصیحت کی تھی (اَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ) ١ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اِنعام و اِحسان سے تم کو نوازا ہے تم بھی اِسی طرح خلقِ خدا کو اِحسان ولطف و کرم سے نوازو۔ یعنی دولت کا مفاد یہ ہوناچاہیے کہ اِحسان واِنعام ولطف و کرم، اِحسان مندی اور شکر گزاری کی فضا جلوہ گر ہو،دولت مند ربِ ذو الجلال کاشکر گزار ہو اور خلقِ خدا پر اِحسان کرے، خلق جو اُس کے لطف و کرم سے فیضیاب ہوگی وہ اُس کی شکر گزار اور اِحسان مند ہوگی، اِس طرح اِنسانی اُخوت بال و پر پھیلائے گی اور شجرہ اِنسانیت بار آور ہوگا۔ اِسلام یہ ہر گز گوارا نہیں کرتا کہ دولت جس کے معنی ہیں ''لین دین'' اِس کی گردش بندہو اور چند اَفراد میں منحصر اور محصور ہو کر رہ جائے۔ آج اگر'' قارون'' اور قارون کے خزانہ سے نفرت فطرتِ اِنسانی کا جز بن گئی ہے اور ''یہودیت '' کو توہین آمیز طعنہ سمجھا جا تاہے تو صرف قرآنِ حکیم ہی ہے جس نے اِن کاتعارف کر ایا یہاں تک کہ سرمایہ نواز الفاظ توہین کے الفاظ سمجھے جانے لگے اور اِن الفاظ کی تہہ میں سرمایہ داری سے نفرت دلوں میں رچ گئی ہے۔ اِسلام دولت کے لیے تقسیم کو لازمی قرار دیتاہے اَلبتہ جب تک اِنسان اپنے ہوش و حواس اور اپنے اِختیار میں ہے وہ دولت کی تقسیم خود نہیں کرتا، وہ ددلت مند سے تقسیم کراتا ہے تاکہ بخل جیسی خصلت کا روگ دولت مندکے دل سے دُور ہو اَلبتہ جب اِنسان موت کا اِستقبال کرتے ہوئے اپنے اِختیارات ١ سورۂ قصص آیت : ٧٧