ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
رہے گی مثلاً جب ایک لاکھ کا سرمایہ ہو جائے گا تو ڈھائی ہزار سالانہ زکوة کی رقم اَدا کرنا ہوگی،اب اگراپنی اِس پونجی کو محفوظ رکھنا چاہتاہے تو وہ مجبور ہے کہ تجوری سے نکال کر مارکیٹ میں لائے اوراِس سرمایہ میں گردش پیدا کرے ورنہ تقریباً پچاس سال میں یہ تمام رقم زکوة کے راستہ ضرورت مندوں کے پاس پہنچ جائے گی۔ پھر اِسلام کی نظر میں سونا چاندی یا مالِ تجارت ہی سر مایہ نہیں ہے بلکہ وہ مویشی بھی سرمایہ ہیں جو دیہات میں بسنے والوں کے پاس ہوتے ہیں، گائے، بیل، بھیڑ، بکری، اُونٹ، بھینس، بھینسا، ہرایک جانور سرمایہ ہے ایک مخصوص مقدار (جس کو نصاب کہا جاتا ہے) مقرر ہے، اگر کسی کے پاس چالیس بکریاں ہیں تووہ ایک نصاب کا مالک ہے اُس کو ختم سال پر ایک بکری دینی ہوگی وغیرہ وغیرہ (تفصیلات کتب ِ فقہ میں بیان کی گئی ہیں)۔ پھریہ تمام خرچ اور آج کل کی اِصطلاح میں اپنی دولت کی تقسیم اگرنام ونمود کے لیے ہے یا کسی پر اِحسان رکھنے یااپنی کوئی غرض پوری کرنے کے لیے ہے تو اگرچہ قانونی طور پر اُس کا فرض اَدا ہو گیا ہے مگرعند اللہ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اُس مٹی میں کاشت کی نیت سے دانے بکھیر دیے جو کسی چٹان پر جم گئی تھی جیسے ہی بارش کی بوندیں پڑیں وہ مٹی بہہ گئی ساتھ میں دانے بھی بہہ گئے دُھلی دُھلائی چٹان باقی رہ گئی جہاں نہ کوئی تخم ہے نہ پودا۔ (سورۂ بقرہ آیت ٢٦٤) اِسلام اور اِیمانی نقطۂ نظر سے یہ خرچ اِس لیے ہونا چاہیے کہ خود اُس کی اپنی اصلاح ہو، بخل وغیرہ کی بری خصلتوں کے بجائے ہمدردی ٔ خلقِ خدا اور لطف و اِحسان کی خصلتیں نشوو نما پائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ بندہ کا جو تعلق اپنے رب سے ہے وہ مستحکم ہو بارگاہِ رب العزت میں اِس کو اِطاعت شعار بندہ قرار دیا جا سکے۔ ایک طرف جذبۂ سر مایہ داری کی یہ بیخ کنی ہے، دُوسری طرف خرچ (یا تقسیمِ دولت) کی یہ اہمیت ہے کہ : (١) کسی شخص کونیک نہیں کہا جا سکتا جب تک اُس میں یہ بات نہ ہوکہ مال کی ضرورت کے