ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
لہٰذا صرف وہ تعبیر قابلِ برداشت اور صحیح ہو سکتی ہے جومساوات واُخوتِ عام کی ہمدوش اور اِنسانیت کی طرح ہمہ گیر ہو، اِس سے اگر کوئی چیز نمودار ہو تو وہ ہے حقیقت پرستی اور حق آگاہی۔ یہ عام تعبیر کیا ہے ؟ ''ماننا ''تسلیم کرنا جس کی عربی ''اِسلام'' ہے ،صداقت پر یقین و اِعتقاد رکھنا جس کا عربی نام ''اِیمان'' ہے ۔دُوسری تعبیر اگر اِس کی ہوسکتی ہے تو قدرتی مذہب اور نیچرم دھرم یعنی ''دین ِفطرت'' اِن کے علاوہ یہ بھی گوارا نہیں کہ مسلم کو ''محمڈن'' کہا جائے یہ نام اِسلام یاقرآن نے اِیجاد نہیں کیا بلکہ یہ اُن کی اِیجاد ہے جو پہلے سے اِنسانیت کی چادر کو یہودیت یا عیسائیت کی مقراض ١ سے پارہ پارہ کر چکے ہیں غالبًا اُس کی تہہ میں یہ جذبہ کام کر رہا ہے کہ جوگناہ خود اُن گروہوں اور ٹولیوں نے کیاہے وہ زبردستی اِسلام کے سر تھوپ دیں مگر اِسلام کی تعلیم اور اللہ کا کلام اِس سے پاک دامن ہے۔ (١٣) اِسلام جس طرح کئی نسلی یا قبائلی غرور کو برداشت نہیں کرتا اِسی طرح وہ دولت و ثروت کے گھمنڈ، اِقتدار یا حکومت کی نخوت کو بھی سراسر لعنت قرار دیتا ہے، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں نہایت اِختصار کے ساتھ اِن تین الفاظ سے اِسلام کے حقیقی رُجحانات اور اُس کی ہمہ گیر اُخوت ومساوات کا اَندازہ کیا جاسکتا ہے۔ (١) شیطان (٢) فرعون (٣) قارون قرآنِ حکیم نے اِن تینوں پر اِتنی لعنتیں برسائیں کہ عام بول چال میں یہ نام گالی تصور کیے جانے لگے ،اِن کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ زیر بحث نہیں ہے قرآ نِ حکیم جس بنا ء پر اِن کو مستحق ِ لعنت قرار دیتاہے وہ تین چیزیں ہیں۔ (١) غرور ِنسل (٢) غرورِ اِقتدار (٣) غرورِ دولت نسلی غرور کا دیو'' شیطان ''ہے، ملوکیت کا مجسمہ'' فرعون'' اورایساسرمایہ دار کہ دولت و ثروت کا گھمنڈ اُس کے دِل کو پتھر بنادے وہ'' قارون'' ہے۔ ١ قینچی