ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
قدرت نے اِنسان کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ فکرو عمل اور سب کے سوچنے کا ڈھنگ ایک نہیں ہوتا، ہرگروہ اپنی سمجھ کے بموجب اپنی رائے رکھتا ہے۔ تمہاری نظر میں اُس کی راہ کتنی ہی بری ہو مگر اُس کی نظر میں وہ ایسی ہی اچھی ہے جیسی تمہاری نظر میں تمہاری راہ اچھی ہے پس ضروری ہے کہ اِس بارے میں برداشت اور رواداری سے کام لو، جس بات کو تم اچھا سمجھتے ہو اُس کی دعوت دو مگر اِس کی کدنہ کرو سب لوگ تمہاری بات مان ہی لیں، تم اُن پر پاسبان نہیں بنائے گئے ہو، نہ تم پراِس کی ذمہ داری ہے کہ دُوسرے کو ضرور ہی نیک بنادو۔ (خلاصہ آیات ١٠٣، ١٠٨ سورہ ٔاَنعام ۔ سورہ ہود آیت ١١٨ ) دین و مذہب دِ ل سے ہے۔ زور،زبردستی نہیں : دین کے معاملہ میں زور زبردستی کا کوئی موقع نہیں، کسی طرح کا جبر واِکراہ دین کے بارے میں جائز نہیں۔ دین کی راہ دِل کے اِعتقاد اور یقین کی راہ ہے اور دِل کی تبدیلی خیر خواہانہ نصیحت اور ہمدردانہ دعوت اور تفہیم سے ہوتی ہے زور ظلم سے نہیں ہوتی۔ (سورۂ بقرہ آیت ٢٥٥۔ سورۂ یونس آیت ٩٩) اِنسان کا درجہ اور مقصد : تمام دُنیا اِنسان کے لیے پیداکی گئی ہے ۔(سورہ بقرہ آیت ٢٨۔ سورہ جاثیہ آیت ١٢، ١٣) اِنسان خداکی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ (سورة الذاریات آیت ٥٦) اِنسان دُنیا میں خداکا خلیفہ اور نائب ہے ۔(سورۂ بقرہ آیت ٢٩) جواِنسان اپنی حقیقت اورخدا داد حیثیت نہیں پہچانتے وہ اِس گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ فرشتوں کو دیوتا مان کر اُن کی پوجا شروع کردیتے ہیں حالانکہ رب العالمین اورخالق ِکائنات نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ سجدہ کریں چنانچہ سب نے سجدہ کیا، صرف ایک نے چوں چرا کی تووہی راندۂ درگاہ ہوگیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم و مردُود ملعون ہوگیا۔ (سورۂ بقرہ آیت ٣٣ ۔سورۂ اَعراف آیت ١١، ١٢۔ سورۂ حجرات آیت ٢٩ ، ٣٤۔ سورۂ ص آیت ٧١ تا ٧٥ )