ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
اپنا ایک غلط یا صحیح تہوار مناتا ہے تو اُس کی حدود تو متعین ہوں، کسی دُوسرے کو تکلیف تو نہ دے، ایک دُوسرے کی دِل آزاری تو نہ کرے، لیکن سڑسٹھ سال گزر گئے اور آپ نے اِس سلسلے میں قانون سازی نہیں کی۔ میلاد کا جلوس آتا ہے، اَمن و اَمان کا مسئلہ پیدا ہو گیا، شہر فوج کے حوالہ کردیا، رینجرز کے حوالہ کردیا ،فلاں فلاں علاقے حساس قرار دے دیے گئے اور پھروہ جلوس خیر خیریت سے گزر جاتا ہے مگر قانون سازی نہیں ہوتی۔ اور تو چھوڑیں، یہ رئویت ہلال کمیٹی کو دیکھیں،میں نے ایک مولوی صاحب سے کہا کہ اِس کمیٹی کی حیثیت قاضی کی ہے اوریہ جو فیصلہ دے گی تو اُس کا فیصلہ حتمی ہوگا اور ہم پر اُس کاماننا لازم ہوگا، اُنہوں نے کہا : اگر یہ قاضی ہے تو قاضی کا فیصلہ کوئی نہ مانے تو اُس کو سزا ہوتی ہے یا نہیں ؟ میں نے کہا : سزا توہوتی ہے ،کہنے لگے: بتائو قانون کہاں ہے ؟ میں نے کہا کہ قانون تو نہیںہے۔ کہنے لگے کہ قانون نہیں تو پھر یہ قاضی نہیں۔ اور کیوں قانون سازی نہیں ہورہی ؟ تاکہ جب بھی کوئی فساد ہو تو مذہب کی طرف لوگو ں کی اُنگلیاں اُٹھیں، کیا ریاست نے اپنی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کرنی ؟ ٦٧ سال ہوگئے کہ اِن فتنوں سے ہم گزر رہے ہیں۔ اِکیسواں ترمیمی بل ..... ہمارا مؤقف اور تحفظات : چنددن قبل پنجاب کے وزیر ِاَعلیٰ صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ جی مساجد کو خود حکومت کنٹرول کرنا چاہتی ہے، یہاں سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ میںنے کہا : حضرت ! میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ پھرآپ کا اَفسر جاکر کسی مولوی کے کان میں یہ نہ کہے کہ مولوی صاحب ! آج ذرا تقریر ٹھوک کر کرنی ہے، یہ فلاں محلے کا دُوسرا مولوی بڑا بدمعاش ہوگیا ہے، آپ کے خلاف بولتا ہے، میرے مولوی کو شدید تقریر پر آمادہ بھی تو آپ لوگ کرتے ہیں، تمہاری ایجنسیاں کرتی ہیں، فسادات تو آپ لوگ پھیلاتے ہیں، آپ خدا کے لیے ہمیں نہ لڑائیں، ہم تو نہیں لڑنا چاہتے، آپ لوگ اپنا فرض تو اَدا کریں۔ ١٩٥١ء کی اِسلامی نفاذ کی تحریک سے لے کر ایم ایم اے تک تمام مکاتب ِفکر کی قیادت نے