ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
یہ تین غرور اِنسانیت کی مقدس سطح میں اُونچ نیچ اور نشیب و فراز کے گڑھے ڈال کر یکسانیت اُخوت اور مساوات کو پارہ پارہ کر ڈالتے ہیں لہٰذا اِنسانیت کی نظر میں بھی مردُود و ملعون ہیں، وہ خدا جو اِنسانیت کو بہترین دولت و نعمت بتاتا ہے اُس کی نظر میں بھی معتوب ومبغوض ہیں۔ (١٤) سیاسی دُنیا کے وزرائِ اعظم جو ایٹمی بموں کی ہولناکیوں سے لرزہ بر اَندام ہیں، اُن کے دِلوں سے پوچھو کیا وہ مذکورہ بالا اُصول کے لیے ''رحمت'' کے سوا اور کوئی لفظ بھی تجویز کر سکتے ہیں یہی رحمت ہے جس سے سارے عالم بلکہ کائنات کے تمام عالموں کو ہمکنار کرنے کے لیے وہ آخری نبی مبعوث کیا گیا جس کا لقب رحمة للعالمین ہے (ۖ) ( وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ ) (١٥) آخر میں ایک بات سن لیجیے ''جہاد'' کے لفظ سے دُنیا کو وحشت زدہ کر کے مسلمانوں نے نہیں بلکہ اُن کے مخالفین نے بہت کچھ پروپیگنڈا کیالیکن یہ سارا پروپیگنڈا غلط اور ناکام ثابت ہوا کیونکہ جہادکے جو معنی بیان کیے گئے اِسلام کا دامن اُن سے پاک ہے۔ جہاد کی غرض و غایت اور اُس کا دستور العمل جو قرآنِ حکیم نے بیان فرمایا یونائٹیڈ نیشنز (اقوامِ متحدہ) کا بین الاقوامی چار ٹر آج تک اُس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔ آزادی ضمیر، آزدیٔ رائے و فکر ، یہ ہے مقدس نصب العین جس کے لیے اِسلام جہاد فرض کرتا ہے ( وَلَولاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ )(سُورہ حج : ٤٠ ) اگر دفاع اور ڈیفنس کا قاعدہ اللہ تعالیٰ لوگوں میں جاری نہ کرتا تو آزادیٔ ضمیر ختم ہوجاتی ۔ اور گرجے، مندر، خانقاہیں، نمازو عبادت اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے سب تباہ و برباد کردی جائیں۔ یہ ہے ڈیفنس(defence) اور دفاع کا مقصد۔ اَب اِیفنس(effence) اور اِقدام کا مقصد ملاحظہ فرمائیے : ( وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَة وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ )( سُورة البقرة : ١٩٣ )