ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
مرنے کے بعد پھر زندگی : اور بہت زیادہ قرآنِ پاک میں اِس کی تاکید ہے جگہ جگہ تذکرہ ہے کہ دوبارہ اُٹھائیں گے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں(اَللّٰہُ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہ ) پیدا فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ پھر دوبارہ (وَھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْہِ ) اور اللہ کے لیے سب آسان ہے۔ اور دِن رات دیکھتے ہیں کہ ایک چیز پیدا ہوتی ہے وہ کھالی جاتی ہے فنا ہوجاتی ہے یا بیچ جو آپ ڈالتے ہیں وہ بھی تو مٹی میں ڈال دیتے ہیں فنا ہی ہوجاتا ہے یہ اَلگ بات ہے کہ وہ نکل آئے نہ نکلے تو فناہی ہوگیا اُس کی وہ شکل توپھر نہیں رہتی وہ تو اور نئی چیز بن کر نکلتا ہے پھر اُس میں سے ہی وہ چیز پھر پیداہوتی ہے جو اُس کی اَصل تھی پھر گیہوں نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں بہت جگہ قیامت کا، بعثت کا دوبارہ اُٹھنے کا یہ ذکر فرمایا حشرو نشر اور حساب تاکہ جو کچھ کرتا ہے اُس کا بدلہ دیاجا سکے اُسے ( لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی ) اُس(عاص بن وائل) نے کہا کہ اچھا ایسے ہوگا ! اِنہوں نے جواب دیا کہ ایسے توہونا ہے اُس نے کہا اچھا جب میں دوبارہ زندہ ہوں گا تو وہاں میرے پاس ظاہر ہے کہ یہ جو مال میں چھوڑ کر جاؤں گا یہاں جمع کیا ہوا یہ بھی ہوگا ،میری اَولاد بھی ہوگی وہاںتو میں پھر اُس وقت وہاں تمہیں دے دُوں گا غرض پیسے نہیں دیے یہ ہے اور اُس میںہے کہ اِس طرح سے مجھے اَولاد ملے گی (لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًا) سورۂ طٰہٰ کے آخر میں یہ آیتیں جو اُتری ہیں یہ اِسی کے بارے میں ہیں اِسی واقعہ پر اِسی سوال وجواب پر اُتری ہیں تو ایک طبقہ تو وہ ہے جو آخرت پر اِیمان نہیں رکھتا تھا وہ پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ ''دہر''کو خدا قرار دینا : ایک طبقہ وہ ہے کہ جو زمانے کو بس خدا مانتے ہیں ''دَہریے'' جنہیں کہتے ہیں وہ بھی پہلے تھا یہ نیا نہیں ہے اور (مَا یُھْلِکُنَا اِلاَّ الدَّھْرُ وَمَا لَھُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ) لیکن یہ سب بعد کی پیداوار ہیں اور سب کے جواب میں اَنبیائے کرام ہر جگہ آتے رہے ہیں اور اُن کو غلطیاں بتلاتے رہے ہیں اور صحیح عقیدہ بتلاتے رہے ہیں ۔یہ عقائد جو ہم تک پہنچے ہیں اِسلام میں محفوظ ہیں مکمل حالت میں محفوظ ہیں،