ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
ایک ہی رہے گا ،یہ سچائی دھرم ہے جس کو عربی میں ''دین'' کہا جاتا ہے یہی دین قرآن کے الفاظ میں ''اِسلام'' ہے ( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ ) نبی اور پیغمبر : اِسی سچائی کو پھیلانے کے لیے ناسمجھوں کو سمجھانے اور ہٹ دھرموں پرحجت تمام کرنے کے لیے خدا کے وہ پاک بندے آئے جن کو رسول، پیغمبر، پرو فٹ، رشی یا منی کہا جاتا ہے جن کو ہر فرقہ ہر قوم اور دُنیا کی ہر ایک اُمت اور ملت تسلیم کرتی ہے مگر جس طرح قدرت نے دامن ِنور کی سلوٹوں میں اَندھیری لپیٹ دی ہے، پھلوں اور پھولوں کی کروٹوں میں کانٹے اور جھاڑ لگادیے ہیں اِسی طرح سچائی کے مقابلہ میں غرور، تکبر اپنی بڑائی، خود غرضی، من کی چاہ، لالچ، دَھن دولت اور پرانی ریت کی ناپاک محبت، لکیر کے فقیر بنے رہنے کی عادت اور اِس طرح کی خراب خصلتوں کے کانٹے بھی بودیے اور اِس طرح کی اَندھیریاں بھی پیدا کردیں جو اپنے اپنے وقت پر اُبھریں اور پھیلیں جنہوں نے سچائی کے پاک و صاف نور کو دُھندلا کردیا اوروہ حق و سچ جو سب جگہ اور ہر حال میں یکساں تھا اُس کو نسل، جغرافیہ یا رنگ ورُوپ کے گہروندوں میں بندکرکے اُس کا حلیہ بگاڑ دیا مثلاً اِسرائیل (یعقوب علیہ السلام) کی اَوالاد نے (جن کوبنی اِسرائیل کہاجاتا ہے) سچائی اور حق کو اپنی گھر کی جاگیر بنا لیا، اُس کی تمام برکتیں بنی اِسرائیل کے لیے مخصوص کردیں۔ یہودا (یعقوب علیہ السلام کے بڑے لڑکے) کے نام پر یہودیت کا ایک ڈیزائن تیار کیا اور اُسی کو سچائی کی کسوٹی اور نجات کا پروانہ قرار دے دیا۔ عیسائیوں نے اِن کے مقابلہ میں کسی قدر وسعتِ نظر سے کام لیا،سچائی کو خاندان کے گھروندوں میں بندنہیں کیا مگر اپنے مذہب کا نام عیسائیت اور مسیحیت رکھ کر سچائی اور نجات کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات اور اُن کی شخصیت کے ساتھ اِس طرح جوڑ دیا کہ اُصول پرستی اور حق شناسی ختم ہوگئی یاایک ضمنی او ذیلی چیز بن کر رہ گئی اور لازمی طور پر دھڑے بندی اور فرقہ پرستی کا بیچ اِنسانیت