ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
|
ٹلانی ہوتی ہے، حضرت خباب رضی اللہ عنہ تو بہرحال مزدور ہی تھے، یہ عاص اِبن وائلِ سہمی جو تھے یہ حضرت عمرو اِبن عاص جو بہت معروف صحابی ہیں اُن کے باپ تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دوست تھے۔ مذہب کیوں بدلا ؟ : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے تو اِن کے گھر پر چڑھائی کر دی کفارنے، گھیراؤ یا چڑھائی اِس طرح کی چیزیں پہلے بھی تھیں مگر وہ چڑھائی تھی گھیراؤ نہیں تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ جو چھوٹے سے بچے تھے اُس وقت ،وہ نقل کرتے ہیں کہ میں اُوپر تھا چھت پہ دیکھ رہا تھا بہت لوگ جمع ہیں مجمع بہت بڑا جمع ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے بس جیسے تھے کچھ نہیں کرسکتے تھے تو اِتنے میں ایک شخص آیا اُس کا حلیہ بتایا بڑا عمدہ لباس، لباس کی بھی اُنہوں نے کیفیت بتائی کہ یہ یہ چیزیں تھیں ایسے تھا ایسے تھا وہ آیا اور اُس نے آکے اُن کو سمجھایا اور اُنہیں کہا کہ دیکھو میںاُن کا دوست ہوں حمایتی ہوں ،تو تم لوگ ایسی کوئی چیز نہیں کر سکتے بس اُس کا یہ کہنا تھا کہ لوگ چھٹ گئے یہی عاص اِبن وائل تھا، مطلب یہ ہے کہ بڑا با اَثر اور بڑا سمجھدار اور غریب نہیں متمول۔ ''این جی اَوز ''والا جبر : مگر اُنہیں پیسے دیتے وقت تنگ کرنا یہ کوئی خاص بات تھی ہی نہیں اورپھر یہ تو مسلمان تھے اِن سے تو چڑ تھی اُن کو تو جب اِنہوں نے تقاضا کیا تو آخرت پر اُس کا اِیمان تھا ہی نہیں تو وہ کہنے لگا کہ میں تودُوں گا جب تم محمد ۖ سے اَلگ ہوجاؤ حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ اُن کا اِنکار کرو ،نبوت کا جو اِقرار کررکھا ہے اِس سے تم پھر جاؤ پھر تو میں تمہیں پیسے دُوں گا ورنہ نہیں دُوں گا، ممکن ہے سامان یامال زیادہ تیار کرا رکھا ہو، تواِیمان کے تو بہت زیادہ پختہ تھے اِنہوں نے کہا نہیں یہ تو ممکن ہی نہیں ہے حتی کہ جب مرے گا تو پھر زندہ ہوگا تو اُس وقت تک بھی یہ ممکن نہیں حَتّٰی تَمُوْتَ ثُمَّ تُبْعَثَ ١ اُس نے کہا کہ اچھا کیا میں مروں گا تو پھر زندہ بھی ہوں گا ! اِنہوں نے کہا کہ ہاں زندہ تو ہو گے ۔ ١ بخاری شریف کتاب الاجارة رقم الحدیث ٢٢٧٥