ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2015 |
اكستان |
نہیں ہے وہ تو اَجزاء ہیںاُس کے، اَب تو آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے ،ایک ایٹم جو ہوتاہے اُس میں کیا کیاطاقتیں بھری ہوئی ہوتی ہیں تو جلنے کے بعد جواَجزاء ہیں اُس کے جسم کے اُن میں سے کسی جز سے حیات ڈال کر سوال کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں آنے سے پہلے : اور اپنی پیدائش کی طرف(اِنسان کو) توجہ دِلائی اور جگہ جگہ ہے (خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ) (مِنْ سُلَالَةٍ مِّنْ طِیْنٍ )اور(مِنْ نُطْفَةٍ ) اور( خَلَقَہ فَقَدَّرَہ ) اور پھر اِس طرح سے( عَلَقَةٍ ثُمَّ مُضْغَةٍ ) اور حدیث شریف میں مزید اُس کی تشریحات آئیں کہ اللہ تعالیٰ اِس طرح سے پیدا فرماتے ہیں اور جو فرشتہ موَّکَل ہوتا ہے مامور ہوتا ہے وہ پوچھتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ سے کہ اَب اِتنا اَب اِتنا اَب اِتنا ،اَب یہ مذکر ہوگا یا مؤنث ہوگا اور شَقِیّ اَمْ سَعِیْد یہ بد بخت ہوگا یا نیک بخت تو وہ سب یُکْتَبُ فِیْ بَطْنِ اُمِّہ (اپنی ماں کے پیٹ میں لکھ دی جاتی ہیں) اِس طرح کی تعلیمات جب دیں اور اِنسان کو پتہ چلا کہ دُنیا نہیں آخرت بھی ہے اور آخرت میں اِتنا ہے کہ جو دُنیا میں نہیں ہے اور یہ جو دُنیامیںہے یہ عارضی ہے قطعی طور پر اور یہ بالکل ناقابلِ اِعتبار ہے ........... تو پھر اُس میں شیطان کودخل ہونا شروع ہوگیا، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اِنَّ لِلشَّیْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ وَ لِلْمَلَکِ لَمَّة شیطان بھی اِسی طرح سے نزول کرتا ہے اِنسان پر یاویوز(waves) پھینکتاہے اپنی چیز کو اُتارتا ہے اُس کے دِل میں اور فرشتہ بھی اِسی طرح، یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو اُسی کے حوالے کردیا ،نہیں ، مدد بھی فرمائی تو یہ جوشیطانی چیزیں ہوتی ہیں اور وساوس ہوتے ہیں وہ پیچھے کی طرف چلے جائیں کہ کس نے پیداکیا ؟ پھر کس نے ؟ پھر کس نے ؟ یا آگے کی طرف چلے جائیں پھر کیا ہوگا ؟ پھر کیا ہوگا ؟ پھر کیا ہوگا وغیرہ ؟ اِن کو فرمایا گیا یہ کوئی گھبرانے کی چیز نہیں یہ اِیمان کی علامت ہے ۔ اور اِس کا علاج بتایا گیا کہ فَلْیَنْتَہِ وہاں رُک جائے دُوسرے کام میں لگ جاؤ اور یہ بھی علاج بتایاگیا کہ فَالْیَسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اَعوذ باللہ کہہ لے اور ویسے ایک حدیث شریف کی کتاب ہے اَبو داود شریف اُس میں میں دیکھ رہا تھا تو اُس میں علاج ایک اور ہے جوبہت آسان سی آیت ہے (ھُوَالْاَوَّلُ