ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
قسم جب وہ نہ رہیں گے تو دُنیا میں سخت بداَمنی پھیلے گی۔ (اِزالة الخفاء ) نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی فرمان کے ذریعہ سے عام طور پر یہ اِعلان کیا کہ ''اہلِ شام کا اور ہمارا خدا ایک، نبی ایک،اللہ اور اُس کے رسول اور قیامت پر اِیمان رکھنے میں نہ وہ ہم سے زیادہ نہ ہم اُن سے زیادہ، ہمارااور اُن کا معاملہ بالکل ایک ہے، اِختلاف صرف خونِ عثمان کا ہے، تو اللہ جانتا ہے کہ میں اُس خون سے بری ہوں۔'' ( نہج البلاغہ) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا ہے کہ اَمَّا شَرْفُکَ فِی الْاِسْلَامِ وَ قَرَابَتُکَ مِنَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامِ فَلَسْتُ اَدْفَعُہ یعنی آپ کی بزرگی جو اِسلام میں ہے اور آپ کی جو قرابت نبی علیہ السلام سے ہے، میں اُس کا منکر نہیں ہوں۔ ( شرح نہج البلاغہ اِبن میسم ) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر رسولِ خدا ۖ نے پہلے ہی دے دی تھی چنانچہ ایک روز حضور ۖ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خو دفرمایا کہ '' اے علی ! اَگلوں میں سب سے زیادہ شقی وہ تھا جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی کے پیرکاٹے تھے اور پچھلوں میں سب سے زیادہ شقی وہ ہے جو تمہاری داڑھی کوتمہارے سر کے خون سے رنگین کرے گا۔ '' واقعہ آپ کی شہادت کا یوں ہوا کہ جنگ ِ نہروان کے بعد تین خارجی مکہ معظمہ میں جمع ہوئے، عبدالرحمن بن ملجم ،برک بن عبداللہ اور عمرو بن بکیر ۔اور اِن تینوں میں باہم یہ معاہدہ ہوا کہ تینوں شخصوں کو قتل کردینا چاہیے علی بن اَبی طالب ، معاویہ بن سفیان اور عمرو بن عاص تاکہ خدا کے بندوں کو اِن کے مظالم سے راحت مِل جائے۔ اِبن ملجم نے کہا میں علی کا کام اپنے ذمہ لیتاہوں، برک نے حضرت معاویہ کے قتل کا ذمہ لیا اور عمرو بن بکیر نے حضرت عمرو بن عاص کا۔ اور سب نے یہ بھی طے کیا کہ تینوں شخص اپنا کام ایک ہی تاریخ میں کریں یعنی گیارہویں رمضان کو یا سترہویں رمضان کو، اِس معاہدہ کے