ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ جمل کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ مشرک تھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں وہ شرک سے بہت دُور بھاگتے تھے۔ کہا گیا کہ پھر کیا وہ منافق تھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں، منافق تواللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں ۔پھر پوچھا گیا کہ جب یہ ہے تو آپ اُن کو اور کیا سمجھے ؟ تو آپ نے جواب دیا اِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَیْنَا وہ ہمارے بھائی ہیں اُنہوں نے ہم سے بغاوت کی تھی۔ جنگ ِ صفین : جنگ ِجمل سے فراغت کے بعد صفر ٣٧ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مقابلہ ہوا، یہ لڑائی بہت دِنوں تک جاری رہی اور بڑی سخت خونریزی ہوئی۔ اِس لڑائی میں حضرت علی کو اپنے ساتھیوں کی سرکشی اور بزدلی سے بہت پریشانی رہی، آخر ایک روز آپ میدانِ جنگ میں تشریف لے گئے ،حضرت معاویہ کو اِس کی اِطلاع ہوئی تو اُنہوں نے حکم دیا کہ علی کو زِندہ گرفتار کر لاؤ۔ لوگوں نے کہا کہ زندہ گرفتار ہوکر آنا مشکل ہے اَلبتہ قتل کر کے ہم لاسکتے ہیں ۔حضرت معاویہ نے کہا ہم علی کو قتل کرنا نہیں چاہتے، اِس کے بعد اہلِ شام کی طرف سے قرآنِ مجید کے نسخے بلند کیے گئے کہ '' اے علی ! آؤ اور اِس کتاب کی رُو سے ہم تم فیصلہ کرلیں۔'' اِس کارروائی کے ساتھ ہی لڑائی موقوف ہوگئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ والے توہمت ہارچکے تھے اِس موقع کو غنیمت سمجھ کر اُنہوں نے فورًا تلوارکو نیام میں کر لیا اور یہ طے پایا کہ دو شخص ١ مقرر کیے جائیں، ایک حضرت علی کی طرف سے اور ایک حضرت معاویہ کی طرف سے دونوں مِل کر جو فیصلہ کریں اُسی پر فریقین عمل کریں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے حضرت اَبو موسیٰ اَشعری کو اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص کوحَکم مقرر کیا، اِن دونوں حکموں کا فیصلہ حضرت علی کے خلاف ہوا۔ اِس لڑائی کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت عثمان کا قصاص چاہتے تھے اور حضرت علی فرماتے تھے کہ بلوائیوں کی قوت زیادہ ہے ابھی اُن سے قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ حضرت معاویہ کہتے تھے ١ تاریخ کی کتابوں میں اِس واقعہ کو ''تحکیم'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی دونوں طرف سے لوگوں نے دو فیصل مقرر کر کے اُن کے فیصلے پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔