ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
شوہر کے لیے نبوی ہدایات : شوہر کو اللہ تعالیٰ نے بیوی پر حاکم بنایا ہے ( سورۂ نساء ٣٤)۔ اِس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ایک عادِل اورمنصف حاکم کی طرح بیوی کے ساتھ معاملہ کرے یعنی اُس کے جو بھی حقوق اپنے ذمہ میں آتے ہیں اُن کو پوری طرح اَداکرے اور بیوی کے ذمہ جو حقوق ہیں اُن سے زیادہ کا اُس سے طالب نہ ہو، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو کبھی بھی اَزدواجی زندگی خوشگوار نہیں گزرسکتی۔ ذیل میں چند اہم اَحادیث ِمبارکہ کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جن میں مردوں کو خطاب کرتے ہوئے اُنہیں عورتوں کے ساتھ حسنِمعاملہ کی تلقین کی گئی ہے ۔ حضرت اَبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖنے اِرشاد فرمایا : ''عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آؤ کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اُس کا اُوپری ہوتا ہے، پس اگر تم اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو تم اُسے توڑ دوگے اور اگر چھوڑ دوگے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی لہٰذا عورتوں سے اچھا معاملہ کرتے رہو۔'' (ریاض الصالحین ص١٣٤) مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں فطرتاً کچھ عقلی ضعف رکھا گیا ہے جس کی بنا پر بسا اَوقات اُن کے طرزِ عمل سے مرد برافروختہ ہوجاتا ہے اور اِنتہائی قدم اُٹھانے کی ٹھان لیتا ہے ایسے وقت میں سنجیدگی سے کام لے کر اور نرمی دِکھا کر معاملہ کو ٹوٹنے سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ آنحضرت ۖ نے حجة الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا : ''خبردار ہوجاؤ ! اور اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اِس لیے کہ وہ تمہارے پاس (گویا کہ) قید ہیں۔ تم اُن کے اُوپر سوائے اِستمتاع وغیرہ کے کسی چیز کے مالک نہیں ہو مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بے حیائی کا اِرتکاب کریں تو اُنہیں اُن کی خواب گاہوں میں ( اَکیلا ) چھوڑ دو اور اُنہیں حدود میں رہ کر مارو (یعنی زیادہ شدید مار نہ مارو) اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہوجائیں تو اُن پر بہانے نہ تراشو۔ اور