ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
بعد اِبن ملجم تو کوفہ پہنچا اور وہ دونوں ملک ِ شام گئے۔ وہ دونوں تو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے مگر اِبن ملجم اپنی مراد شقاوت بنیاد میں کامیاب ہوگیا۔ حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ فجر کی نماز کے لیے بہت سویرے مسجد میں تشریف لے جاتے تھے اور راستے میں اَلصَّلٰوةُ اَلصَّلٰوةُ کہتے ہوئے جاتے تھے۔ اِسی دِن اِبن ملجم راستے میں چھپ کر بیٹھ گیا، بس جیسے ہی آپ مسجد کے قریب پہنچے ہیں اُس نے آپ کی پیشانی مبارک پر تلوار ماری جو دماغ تک تیر کر گئی اور خون سے آپ نہاگئے ،داڑھی آپ کی خون سے تر ہوگئی۔ حضرت اِمام حسن فرماتے تھے کہ میں پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا یکایک مجھے تلوار کی چمک محسوس ہوئی اور اَمیر المومنین کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا اور یہ فرماتے ہوئے کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ قسم ہے رب ِ کعبہ کی کہ میری آرزو پوری ہوگئی۔ جس صبح کو یہ واقعہ ہوا اُس شب میں آپ نے ایک خواب دیکھا اور حضرت حسن سے یہ فرمایا کہ آج میں نے رسولِ خدا ۖ کو خواب میں دیکھا اور میں نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ ! آپ کی اُمت سے مجھے بہت اَذیت پہنچی۔ آپ ۖنے فرمایا تم اُن کے لیے بددُعا کرو، تو میں نے کہا یا اللہ مجھے اِن کے بدلے میں اچھے لوگ عنایت کر اور اُن کو میرے بدلے کوئی برا شخص دے۔ اِس واقعہ کے بعد چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے اور اِبن ملجم پکڑ لیا گیا۔ حضرت علی مرتضٰی نے اپنے سامنے اُس کو قتل نہیں ہونے دیا اور فرمایا اگر میں اچھا ہوگیا توپھر مجھے خود اِختیار ہوگا، چاہوں گا توسزا دُوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردُوں گا لیکن اگر میں اچھا نہ ہوا تو پھر یہ کرنا کہ اُس نے ایک ضرب ماری تھی تم بھی اِس کو ایک ہی ضرب مارنا۔ یہ واقعہ جمعہ کے دِن ہوا تھا اور شب یکشنبہ میں آپ نے وفات پائی۔ آپ کے بعد اِبن ملجم کو بہت بری طرح قتل کیا گیا، اُس کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے، اُس کی زبان بھی کاٹی گئی، اُس کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اِس کے بعد وہ آگ میں جلادیا گیا۔ آپ کے مدفن میں اِختلاف ہے مگر مشہور قول یہی ہے کہ آپ کا مزار مبارک نجف میں ہے۔