ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
بصرہ میں وبائی حملہ : تو ایسے ہوا ہے سن ١٣٠ھ میں غالبًا یعنی تاریخ میں وہ موجود ہے کسی سال میں بصرہ میں طاعون ہوا اور اِتنی اَموات ہوئیںکہ لوگ رہے ہی نہیں گھر میں ،خالی ہوگئے تو باہر سے دفن کرنے والے نہیں ملتے تھے کہ اِتنے اِنتظام کرلیں تو کنڈی لگا دیتے تھے اور پھر موقع ملتا تھا آکر نہلا دُھلا کے دفن کر دیتے تھے اور بڑھا یہ اِتنا بڑھا کہ پھر لوگوں نے یہ کیا کہ ایک کمرے میں بند کر کے یا دروازہ بند کرکے گھر کا اور اُس کے آگے چُن دیتے تھے (دیوار)کیونکہ نہ آسکتے ہیں نہ دفن کر سکتے ہیں نہ کچھ کر سکتے ہیں۔ بہت بڑی تعداد ستر ہزار کے قریب بتلائی جاتی ہے لکھی ہے تحریر ہے تاریخ میں اُس میں شہید ہوگئی اِن سب کو شہادت کا اَجر ملتا ہے جو مسلمان بھی اِس میں گئے ہیں وہ سب کے سب ہی شہید ہوئے ہیںگویا اِتنا بھی موقع نہیں مِلا اُنہیں ،اِنتظام ہی نہیں وہ کر سکے مگر رہے ہیں وہ موجود تب ہی تو یہ ہوا ہے اور اگر سارے کے سارے نکل جاتے پھر کیا ہوتا ؟ اور پتہ نہیں کہاں کہاں پہنچتا یہ مرض ! ! ! وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں فراغت ہوئی کچھ بیماری ختم ہوئی تو پھر اُن لوگوں کو جن کو اِس طرح سے بند کیا تھا چُن دیا تھا اُن کے دروازوں کے آگے، ہم لوگ گئے داخل ہوئے اُن کی تدفین کا اِنتظام کیا کسی نہ کسی طرح جیسے بھی مناسب ہوا ہوگا تو اِس میں کافی وقت لگ گیا، اَب کتنا ؟ یہ نہیں بتایا مہینہ لگا ،دو لگے، ڈیڑھ لگا بہرحال سرکاری لوگ بھی ہوں گے پبلک کے لوگ بھی ہوں گے سب ہی اِس کام پر لگے ہوں گے۔ جسے خدا رکھے اُسے کون چکھے ! کہتے ہیں ایک جگہ دروازہ کسی طرح ہم توڑ کر داخل ہوئے تو دیکھا تو ایک بچہ ہے ،کہنے لگے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آیاکہ یہ بچہ کیسے زندہ ہے باقی سب ختم ہوچکے تھے اور وہ زندہ ہے تو کہنے لگے اَبھی ہم اِسی میں تھے کہ ایک کتیا داخل ہوئی اور اُس کتیا نے اُس بچہ کو دُودھ پلایا وہ بھی اُس کی طرف گیا وہ بھی اُس کی طرف گئی اور اُس نے دُودھ پلایا، کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اُس کی زندگی تھی سب مرگئے وہ رہ گیا ! غذا کا کیا ہو ! ! اللہ تعالیٰ نے وہ بھیج دیا !!! اللہ کے لیے کوئی بات ہی نہیں اِنسان کے لیے