ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
حاصلِ مطالعہ ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور ) حضرت اَبو عبیدہ نے لیا ہوا جزیہ واپس کردیا : سیّد صباح الدین عبدالرحمن تحریر فرماتے ہیں : ''شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو وہاں سے کچھ لوگ نکل کر اِنطاکیہ پہنچے اور اُس کے حکمران ہرقل کوایک زبردست فوج لے کر حِمص کی طرف بڑھنے کو آمادہ کیا جہاں حضرت اَبوعبیدہ اپنے ہمراہیوں اور اُن کے متعلقین کے ساتھ سکونت پذیر ہوچکے تھے۔ حضرت اَبوعبیدہ کو غنیم کے لشکر جرار کی خبر ملی تو مجلس ِمشاورت منعقد کی جس میں یزید بن اَبی سفیان نے رائے دی کہ وہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں چھوڑ کر باہر لشکر آراء ہوجائیں، شر حبیل بن حسنہ نے اِس سے یہ کہہ کر اِختلاف کیا کہ ایسی حالت میں شہر کے عیسائی بچوں اور عورتوں کو مار ڈالیں گے یا دُشمنوں کے حوالہ کر دیں گے۔ یہ سن کر حضرت اَبو عبیدہ نے کہا تو پھر ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیں، شرحبیل نے اِس کی بھی پر زور مخالفت یہ کہہ کر کی کہ جب ہم نے عیسائیوں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے اور اُن کو شہر میں اَمن و اَمان سے رہنے کا حق دے دیا ہے تو نقضِ عہد کیونکر ہو سکتا ہے، حضرت اَبو عبیدہ نے اپنی غلطی تسلیم کرلی، اِس کے بعد یہ رائے ہوئی کہ حِمص کو خالی کر کے دمشق کو محاذ بنایا جائے مگر حمص چھوڑنے سے پہلے حضرت اَبو عبیدہ نے حکم جاری کیا کہ اَب وہ اِس کے باشندوں کو دُشمنوں سے بچا نہیں سکتے، اِس لیے اُن سے جو جزیہ یا خراج لیا گیا تھا وہ اُن کو واپس کردیا جائے کیونکہ جزیہ