ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
اللہ کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔ اِس کے بعد حضرت معاویہ نے ضرار سے پوچھا، تم کو علی کی شہادت سے کیسا رنج ہوا، ضرار نے کہا کہ جیسے کسی ماں کا ایک ہی فرزند ہو اور وہ اُس کی گود میں ذبح کردیاجائے۔ آپ کے زُہد اور جفاکشی اور تنگی ٔ معیشت کے عجیب عجیب حالات ہیں جن کو دیکھ کررونا آتا ہے اور دُنیا سے دِل سرد ہوجاتا ہے۔ ذہن آپ کا نہایت تیز تھا،فیصلہ نہایت عمدہ کرتے تھے۔ حضرت عمر اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت میں قاضی بننے کی صلاحیت علی میں سب سے زیادہ ہے۔ آپ کے نہایت عجیب وغریب فیصلے رسولِ خدا ۖ اور شیخین کے زمانے کے منقول ہیں اور ایک بڑا ذخیرہ اِزالة الخفاء میں بھی ہے۔ آپ سے کرامات وخوارقِ عادات کا بھی ظہورہوا ہے۔ معارف ِتوحید کے بیان میں بھی آپ ممتاز مرتبہ رکھتے تھے۔ حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے تھے کہ صحابہ کرام کے طبقے میں اِن معارف کا بیان سب سے پہلے آپ ہی نے کیالیکن آپ نے جوکچھ بیان فرمایا وہ سنت ِ اَنبیاء کے مطابق ہے، بعد میں جاہل صوفیوں نے اِن باتوں کوکہیں سے کہیں پہنچادیا۔ تصوف میں آپ کا پایا بہت بلند ہے یوں تو تزکیہ ٔ باطن تمام صحابہ کرام کو حاصل تھا۔ رسولِ خدا ۖ کی صفت قرآنِ مجید میں ( وَیُزَکِّیْھِمْ ) اِرشاد ہوئی ہے مگر پھر اپنی اپنی اِستعداد کے موافق باہم فرقِ مراتب تھا۔ حضرت علی مرتضیٰ اِس صفت میں ایسی فوقیت رکھتے تھے کہ حضرات ِ شیخین کے بعد اِس وصف میں آپ کا درجہ قرار دیا جاتاتھا۔ حضرت علی مرتضیٰ کے بعض کلمات ِ طیبات : ٭ فرماتے تھے کہ ''بندے کو چاہیے کہ سوا ئے اپنے رب کے کسی سے اُمید نہ رکھے اور اپنے گناہوں کے سوا کسی چیز کا خوف نہ کرے۔ '' ٭ فرماتے تھے کہ ''جو کسی بات کو نہ جانتا ہو، اُس کو سیکھنے میں شرم نہ کرنی چاہیے اور جب کسی سے ایسا مسئلہ پوچھا جائے جس کااُسے علم نہ ہو تو اُس کو بے تکلف کہہ دینا چاہیے کہ اَللّٰہُ اَعْلَمْ ''