ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
سے کنارہ کش رہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کو جب حضرت علی نے اپنی رفاقت کے لیے بلایا اور اُن کے والد سے اپنے تعلقات کا ذکر کیا تو اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ'' اے اَبوالحسن ! اللہ کی قسم آپ اَژدھے کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کو کہیں تو میں تیار ہوں لیکن آ پ یہ چاہیں کہ کسی لااِلہ اِلا اللہ کہنے والے پر تلوار اُٹھاؤں یہ مجھ سے نہ ہوگا۔'' ایسا ہی اور صحابۂ کرام نے بھی کیا کہ نہ وہ اِدھر تھے نہ اُدھر تھے، اِس جماعت کو'' قاعدین'' کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ جنگ ِ صفین کے بعد حضرت علی مرتضیٰ کے قبضے سے تمام مُلک نکل گیا حتی کہ آخر میں سوائے کوفہ اور مضافات ِکوفہ کے آپ کے پاس کچھ نہیں رہ گیا۔ جنگ ِ جمل و صفین کے بعد حالات حسب ِوعدہ لکھے جاتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوگا کہ اِن لڑائیوں کو جو لوگ صحابہ کرام کی بدگوئی کا ذریعہ بناتے ہیں وہ کس قدر گمراہی میں مبتلاء ہیں۔ جنگ ِ جمل : یہ لڑائی جمادی الاخریٰ ٣٦ھ میں ہوئی، اِس لڑائی کے قصے میں بہت رنگ آمیزی کی گئی ہے اور جھوٹ ملایا گیا ہے، صحیح واقعہ جو صاحب ِسیف المسلول نے بحوالہ تاریخ قرطبی بیان کیا ہے، یہ ہے کہ : حضرت طلحہ و زبیر جب بلوائیوں کے جبر سے حضرت علی مرتضیٰ کے دست ِ مبارک پر بیعت کر چکے تو فورًا مدینے سے چل دیے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اُس سال حج کوگئی ہوئی تھیں اور اُس وقت تک مکہ میں تھیں،حضرت طلحہ و زبیر نے سارا واقعہ اُن سے جا کر بیان کیا کہ عثمان شہید ہوگئے اور بلوائیوں نے لوگوں پر جبر کر کے حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرائی ہے اور اِس وقت مدینہ میں سخت فتنہ برپا ہے، آ پ اُم المومنین ہیں آپ کی پناہ میں ہم کو اَمن ملے گا، آپ ایسی کوشش کیجیے کہ یہ فساد کسی طرح دفع ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مصلحت اِس میں سمجھتے ہیں کہ ابھی قاتلانِ عثمان سے قصاص لینے میں سکوت کیا جائے حالانکہ اِس سکوت سے بلوائیوں کا زور بڑھتا جارہا ہے۔ حضرت عائشہ