ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
نہایت تعجب کی بات ہے کہ کوئی بچ جائے اِس طرح سے ،کوئی دیکھنے بھالنے والا نہیں ہے کوئی خدمت کرنے والا نہیں وہ کتیا ہی اُسے چاٹ چاٹ کے صاف کرتی تھی وہ ٹھیک ٹھاک رہتا تھا اور غذا ! غذا کے لیے اللہ نے اُس کتیاکے دِل میںڈال دیا کہ جاؤ ،ورنہ کتیا اور اِنسان کا دُودھ پلانے کا جوڑ تو نہیں ہے مگر اِس کے دِل میں خدا نے یہ ڈال دیا اُس کے دِل میں خدا نے وہ ڈال دیا، اِس طرح وہ بچہ مِل گیا اُن کو ،اُس سال کے عجائبات میں حافظ اِبن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اَلبدایہ والنہایہ میں یہ واقعہ بھی دیا ہے ۔ یہ کام ثواب کیسے بن سکتا ہے ؟ حدیث شریف کی تعلیم یہ ہے اور یہ تعلیم آج کی جدید ترین معلومات کے مطابق ہے کہ نہ وہاں جائے نہ وہاں سے نکلے۔ اَب یہ تو ہوئی مادّی چیز اِس کو ثواب کیسے بنائے گا ؟ کیونکہ شریعت نے تو آپ سودا لیتے ہیں خریدتے ہیں بیچتے ہیں گھر سے باہر نکلتے ہیں کام کاج کے لیے جاتے ہیں اُس سب کو عبادت بنایا ہے ! تو عبادت اِس طرح بنے گا کہ نیت ہو ،نیت تویہ ہو کہ مذہب پر عمل کرنا ہے اللہ نے جو حقوق بتائے ہیںوہ اَدا کرنے ہیں تو اَب اِسلام نے تو آخرت اور اَجر پر نیت رکھنی بتائی ہے ،تم کوئی کام اپنی ذات کے لیے کرو ہی نہ توسارے کام عبادت بن جائیں گے وَحَتَّی الُّقْمَةَ تَجْعَلُھَا فِیْ فِی امْرَأَتِکَ ١ کسی کی بیوی بیمار ہو تو اُسے کھلائے پلائے اُس کے منہ میں لقمہ ڈالے اُس کو غذا دے پانی پلادے کوئی خدمت کرے وہ بھی عبادت ہے وہ بھی حسنات میں داخل ہے حالانکہ یہ اِنسانی خدمت ہے یہ کوئی کھڑے ہو کر خدا کے سامنے عبادت کرنے کے طرز کی عبادت نہیں ہے، یہ معاملات کے اَندر داخل ہے تو ایک یہ کہ ہسپتال میں لے جائو داخل کردو، ایک یہ کہ خود خدمت کرو تو دونوں میں فرق ہو گیا جو لوگ خود خدمت کر رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں اور اگر بوجھ سمجھ کر ہسپتال داخل کرتے ہیں تو یہ نہ کریں بلکہ ثواب سمجھ کے خدمت کریں، ایسے ہوتے ہیںبڑھاپے میں بیچارے کسی کام کے نہیں رہتے بس زِندہ ہیں اور لیٹے ہوئے ہیں بالکل معذورہوش بھی نہیں جیسے سو رہے ہوں بیہوش ہیں، مہینوں کیا برسوں اِس حالت میں رہتے ہیں اَب اُس میں یا تو ہسپتال لے جا کے داخل کردو اُسے اور یا خود خدمت کرلو ١ بخاری شریف کتاب مناقب الانصار رقم الحدیث ٣٩٣٦