ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
وہاں سے کچھ لوگ آرہے ہوں تو وہ ''قرنطینہ'' ١ کر دیتے ہیں سات دِن کا، ایک ہی جگہ ٹھہرا دیتے ہیں اُن کو محدود علاقہ میں تاکہ اُن میں سے کسی میں اگر جراثیم وہ آئے ہیں تو اُسی تک رہیں آگے نہ پھیلنے پائیں اور سب ڈاکٹر بھی یہ کہتے ہیںتوعقلاً بھی ایسے ہوا۔ لیکن اُن حضرات کی آخرت پہ نظر تھی اور تقدیر پر اِیمان تھا بہت زیادہ تو اِنہیں تشفی نہیں ہورہی تھی جب تک حدیث شریف نہ مِل جائے اور حدیث میں مِل گیا یہ کہ جہاں بیماری ہو وہاں تم مت جاؤ ۔تو اَب بھی یہی ہے جو لوگ جاتے ہیں جو ڈاکٹر جاتے ہیں پوری اِحتیاط سے جاتے ہیں علاج کے لیے بھی پہنچتے ہیں اِمداد کے لیے بھی پہنچتے ہیںاپنے اِنجکشن لگاتے ہیں یا جو بھی تدابیر ہوتی ہیں وہ پوری کرتے ہیں محتاط رہتے ہیں کھانے پینے کی اِحتیاطیں کرتے ہیں، بعضی بیماریاں ایسی ہیں جن کے جراثیم کسی خاص ذریعہ ہی سے پہنچ سکتے ہیں ویسے نہیں پہنچ سکتے، کالرے (Cholera)کے جراثیم یہ کھانے پینے کی چیزوں سے ہی پہنچ سکتے ہیں ،پانی پکا ہوا پیے اور کھانے میں یہ ہے کہ کھانا گرم کر کے کھائے جوش دے کر کھائے، بغیر اِس کے جراثیم داخل نہیں ہوسکتے جسم میں تو اگر کوئی آدمی ایسی جگہ پہنچے اور وہاں یہ اِحتیاط کر لے کہ پکا ہوا پانی اور پکی ہوئی غذا اور گرم کر کے اور جوش دے کے اِس طرح سے اِحتیاط کرے تو وہ ٹھیک رہے گا، ہو سکتا ہے وہ وہاں کی آب و ہوا سے قلبی ضعف کی وجہ سے متاثر ہو تو ہو ،بیماریوں سے وہ نہیں ہوگا اُس بیماری سے وہ بچ جائے گا ۔ اَخلاقی ضرورت : پھر یہ ہے کہ جہاں وہ لوگ رہتے ہیں اگر وہاں معاذاللہ ایسی بیماری ہو اور سب بھاگنے لگیں تو جو مرے ہوئے ہیں یا جو بیمار ہیں اُن کی تیمارداری کون کرے گا اَخلاقًا بھی ایسی چیز ہے اِنسانیت کے لحاظ سے بھی ایسی چیزہے اور ڈاکٹری لحاظ سے یہ ہے کہ کچھ لوگ متاثر ہوں گے کچھ نیم متاثر ہوں گے اور کچھ برداشت کرجائیں گے تو اُن میں خود ہی وہ جراثیم داخل ہوجائیںگے اور برداشت بھی ہوجائے گی بدن دفاع بھی کرلے گا اور وہ ٹھیک ٹھاک رہیں گے۔ ١ Quarantine وہ میعاد جس میں مسافروں یا وباء زدہ علاقہ کے بیماروں کو جبرًا سب سے علیحدہ رکھا جاتا ہے تاکہ مرض پھیلنے نہ پائے۔