ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2014 |
اكستان |
|
کہ آپ اُن کے درمیان سے ہٹ جائیں تو میں ابھی اُن سے قصاص لے لوں۔ اِسی بات میں اِس قدر طول ہوا کہ فوج کشی کی نوبت آگئی۔ اِس لڑائی میں بھی نہ حضرت علی نے اپنے مقابل والوں کی تکفیرو تفسیق کی نہ حضرت معاویہ نے، اور یہ بالکل اِفتراء ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت علی پر لعنت کا حکم دیا تھا۔ اِس لڑائی کے واقعات بھی بتاتے ہیں کہ لڑائی ہوئی تومگر دِلوں میں بغض وعناد یا نیتوں میں فتور ہرگز نہ تھا۔ دو ایک واقعہ حسب ِ ذیل ہیں : دورانِ جنگ حضرت اَبوہریرہ رضی اللہ عنہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے تھے، روزانہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر جا کر کھانا کھاتے تھے ۔ایک روز ایک شخص نے کہا کہ اے اَبو ہریرہ آپ کی عجیب حالت ہے نماز حضرت علی کے پیچھے پڑھتے ہیں اور اُن ہی کے ساتھ ہوکر لڑتے ہیں اور کھانا یہاں آکر کھاتے ہیں۔ حضرت اَبوہریرہ نے کہا کہ نماز اُنہیں کے پیچھے اچھی ہوتی ہے اور خلیفہ ٔ برحق وہی ہیںلہٰذا جہاد بھی اُن ہی کے ساتھ ہو کر اچھا ہے اِس لیے نماز بھی وہیں پڑھتا ہوں اور جہاد بھی اُن ہی کے ساتھ ہو کر کرتا ہوں مگر کھانا تمہارے یہاں اچھا ہوتا ہے لہٰذا کھانا تمہارے یہاں آکر کھاتا ہوں، حضرت معاویہ سنتے رہے اور مسکراتے رہے۔ ( تطہیر الجنان) دروانِ جنگ یہ خبر آئی کہ مضافات ِرُوم میں کوئی چھوٹی سی ریاست عیسائیوں کی جو باقی رہ گئی تھی اُس نے دیکھا کہ اِس وقت مسلمانوں میں دو فریق ہوگئے ہیں اور آپس میں لڑ رہے ہیں، یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ مدینہ منورہ پر قبضہ کر لیا جائے چنانچہ اُس نے تیاری شروع کردی، حضرت معاویہ نے فورًا اُس کو خط لکھا کہ '' اے رُومی کتے ! توہماری آپس کی لڑائی سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، جس وقت تو مدینہ کی طرف رُخ کرے گا تو خدا کی قسم علی کے لشکر سے جو پہلا سپاہی تیری سرکوبی کے لیے نکلے گا اُس کا نام معاویہ بن اَبی سفیان ہوگا۔'' اِس خط کے پہنچنے پر اُس عیسائی کی ہمت پست ہوگئی۔ (تاریخ طبری) لڑائی کے بعد حضرت علی سے حضرت معاویہ کے متعلق اور حضرت معاویہ سے حضرت علی کے متعلق اچھے کلمات منقول ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا کہ اے لوگو ! معاویہ کی حکومت کو برا نہ سمجھو، خدا کی