ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
مردوں پر عورتوں کی تعلیم ضروری اور واجب ہے : مرد عورتوں کی تعلیم اپنے ذمہ ہی نہیں سمجھتے (حالانکہ) آپ حضرات کے ذمہ اُن کی تعلیم بھی ضروری ہے، مردوں پر واجب ہے کہ اُن کو اَحکام بتلائیں حدیث میں ہے کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَّسْئُول عَنْ رَعِیَّتِہ یعنی تم سب ذمہ دار ہو تم سے قیامت میں تمہاری ذمہ داری کی چیزوں سے سوال کیا جائے گا۔ مرد اپنے خاندان میں اپنے متعلقین میں حاکم ہے، قیامت میں پوچھا جائے گا کہ محکومین کا کیا حق اَدا کیا، محض نان نفقہ ہی سے حق اَدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ کھانا پینا دُنیا کی زندگی تک ہے آگے کچھ بھی نہیں اِس لیے صرف اِس پر اِکتفا کرنے سے حق اَدا نہیں ہوتا چنانچہ حق تعالیٰ نے صاف لفظوں میں اِرشاد فرمایا ( یَآاَیُّھَاالَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا ) اے اِیمان والو ! اپنی جانوں کو اور اپنے اہل کو دوزخ سے بچاؤ یعنی اُن کی تعلیم کرو، حقوق اِلٰہی سکھلاؤ ،اُن سے تعمیل بھی کراؤ تو گھروالوں کو دوزخ سے بچانے کا معنی یہی ہے کہ اُن کو تنبیہ کرو۔ بعض لوگ بتلا تو دیتے ہیں مگر ڈھیل چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں کہ دس دفعہ تو کہہ دیا ،نہ مانیں تو ہم کیا کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ مردوں نے بھی دین کی ضرورت کو ضرورت نہیں سمجھا ،کھانا ضروری ،فیشن ضروری، ناموری ضروری، مگر غیر ضروری ہے تو دین۔ دُنیا کی ذرا سی مضرت کا خیال ہوتا ہے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر دین کی مضرت پہنچ گئی تو کیسا بڑا نقصان ہوگا۔ پھر اگر وہ مضرت اِیمان کی حدمیں ہے تب تو چھٹکارا بھی ہوجائے گا مگر نقصان (عذاب) پھر بھی ہوگا دائمی نہ ہو، اور اگر اِیمان کی حد سے بھی نکل گئی تب تو ہمیشہ کا مرنا ہو گیا اور تعجب ہے کہ دُنیا کی باتوں سے تو بے فکری نہیں ہوتی مگر دین کی باتوں سے کس طرح بے فکری ہوجاتی ہے (حقوق الزوجین ص ٣٥ ۔ دعواتِ عبدیت ص ١٧٠) (خلاصہ یہ کہ حدیث کے بموجب) بڑا چھوٹے کا نگران ہوتا ہے اور اُس سے باز پرس ہوگی تو جس طرح ممکن ہو عورتوں کو دین مرد خود سکھلادیں یا کوئی بی بی دُوسری بیبیوں کو سکھادے اور سکھانے کے ساتھ اُن کا کاربند بھی بنادے اِس کے بغیر براء ت نہیں ہوسکتی۔