ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2014 |
اكستان |
|
کے لیے یوں سوال کیا۔ ( اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَن یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ)(سُورہ البقرہ : ١٠) ''کیا قائم کرتا ہے توزمین میں اُس کو جو فساد پیدا کرے اِس میں اور خون بہائے اور ہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو۔ '' اللہ تعالیٰ نے جواب اِرشاد فرمایا : ( اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ) ( سُورة البقرہ : ٣٠) ''بے شک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔ '' سو فرشتوں نے مشیت ِ الٰہیہ کے آگے سرِ تسلیم خم کردیا پھر اللہ نے اُن سے فرمایا : ( اِنِّیْ خَالِق بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِن رُّوْحِیْ فَقَعُوْلَہ سٰجِدِیْنَ ) (سُورۂ ص : ٧١ و ٧٢ ) ''میں بناتاہوں ایک اِنسان مٹی کا پھر جب ٹھیک بنا چکوں اور پھونکوںاُس میں ایک اپنی جان تو تم گر پڑو اُس کے آگے سجدہ میں۔ '' اللہ نے اپنے دست ِقدرت سے زمین کی مٹی اُٹھائی اور اُس میں پانی ملایا تووہ کھنکھناتی مٹی کی طرح ہوگئی پھر اُس سے اللہ نے ایک جسم تشکیل دیا اور اُس میں رُوح پھونکی جس سے پورے جسم میں زندگی کی لہر دوڑ گئی، یوں حضرت آدم علیہ السلام کو وجود مِلا۔ جب فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا تو حکم ِ اِلٰہی کے مطابق آپ نے سامنے سجدہ میں گر گئے لیکن فرشتوں کا یہ سجدہ، سجدہ ٔ عبادت نہیں تھا بلکہ سجدۂ تعظیمی تھا، تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن اِبلیس نے نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس سے فرمایا : ( یَا اِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ) (سُورة ص : ٧٥) ''اے ابلیس ! کس چیز نے روک دیا ہے تجھ کو کہ سجدہ کرے اُس کو جس کو میں نے