ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2013 |
اكستان |
|
بتلایاجاتا کہ تحصیلدار صاحب کی بیگم ہیں اِن کی اَور ذلت ہوتی۔ بس وہاں سے آکر جب گھر آئی ہیں تو تحصیلدار صاحب پر برس پڑیں کہ میری ناک کٹاکے رکھ دی مجھے ذلیل ورُسوا کیا، چپڑاسی اَور نوکران کی عورتیں تو زیو ر سے لدی رہتی ہیں، نئے نئے جوڑے منٹ منٹ پربدلے جاتے ہیںاَور میرے پاس صرف ایک سادہ جوڑا ،زیور سے بالکل ننگی ۔ تحصیلدار صاحب نے سمجھایا کہ اَرے جتنی تنخواہ ہے اُسی کے مطابق اِنتظام کرتا ہوں وہ لوگ دُوسری طرح آمدنی کرتے ہیں رشوت لیتے ہیں۔ بیگم صاحبہ فرماتی ہیںتو آپ کے لیے کیا دَروازہ بندہے ، آپ کو کس نے منع کیا ؟ اَلغرض اِتناپیچھے پڑیں بالآخرشوہر کو مجبور کر دیا وہ رشوت لینے لگے اَور اُن کی ساری دینداری ختم ہو گئی۔ یہ تحصیلدار صاحب کی کمزوری اَورڈھیلے پن کی بات تھی ورنہ سخت ہو جاتے، نہ لیتے رشوت، کیا کر لیتی عورت، گھر سے نکال دیتے دماغ دُرست ہوجاتا۔ جب عورت بد دین ہوتی ہے توشوہر کو بھی بددین بنا دیتی ہے اِسی وجہ سے اہل ِکتاب یہودی یا عیسائی عورتوں سے کوئی نکاح کرے تو نکاح تو جائز ہو جائے گا لیکن اِس کی ممانعت ہے کیونکہ اِس سے گھر برباد ہوتاہے ۔ دورانِ گفتگو فرمایا کہ شوہربیوی کا بے تکلف ہو کر ماںباپ اَور اپنے بڑوں کے سامنے بولنا ہنسی مذاق کرنا جائز توہے لیکن اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ کچھ چیزیں عرفی ہوتی ہیں ،عرف میں اُس کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ فقہا کی تصریح کے مطابق اَدب کا مدار عرف پر ہے اَور عرف میں بڑوں کے سامنے بے تکلف ہوکر بات کرنے کو بے اَدبی سمجھا جاتاہے لہٰذا یہ بہت بڑی بے اَدبی اَور بے حیائی ہے۔