ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
اِس کو اَپنا جائز حق جانتے ہوئے لڑکی والوں سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اُن کا ایسا مطالبہ کرنا بالکل ناجائز اَور غیر شریفانہ ہے، اِس میں لڑکی اَور لڑکی والوں کی بہت بے عزتی ہے نیز لڑکی کی بھیڑ بکریوں کی طرح اِس قسم کی نمائش سے'' عورت ذات'' کے جذبات کی پامالی بھی ہوتی ہے اَور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے قربانی کی گائے خریدنے کے لیے جارہے ہیں ،کبھی اُس کی کاٹھی ناپی جاتی ہے کبھی قد ،کوئی آنکھوں میں جھانک رہا ہے تو کوئی دانت ، کوئی چال ڈھال پر نظر رکھے ہوئے ہے تو کوئی رنگ پر، عورت ذات کی ایسی پامالی کا دَستور کافروں میں بھی نہیںہے۔ یہ ماں کے رُوپ میں ہو یا بیٹی و بہن کے رُوپ میں ہر حال میں اِسلام نے اِس کو عزت وشرف سے نوازا ہے ۔ نکاح کے لیے صرف لڑکے کو تو اِس کی اِجازت دی گئی ہے باقی کسی کو نہیں ،لڑکے کوچاہیے کہ وہ اِس قسم کی واہیات خواہش رکھنے والے اَپنے رشتہ داروں پر سختی سے واضح کردے کہ ایسا نہیں ہو سکتا اِیمانی اَور مردانہ غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہے ۔ ہر مرد تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ لے کہ اُس کی بھی بہن ، بیٹی ،بھانجی اَور بھتیجی ہیں اَگر اُن کی بھی اِس طرح کی نمائش کا مطالبہ کیا جائے تو اُس کے اَپنے دِل پر اَور خود اِن لڑکیوں کے دِل و دماغ پر کیا گزرے گی اَور اِس طرح دو چار بار ہو جائے اَور دیکھنے والے ہر بار مسترد کر جائیں تو لڑکیاں نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں اَور پورا خاندان اِحساسِ کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے، صرف اَپنے جذبات اَور خواہشات پر نظر رکھنا اَور دُوسروں کے حق میں بے حس ہوجانا شریفوں کا شیوا نہیں ہے۔ اَور ایسا مشاہدہ تو کئی بار ہوا ہے کہ جن خاندانوں نے دُوسرے خاندانوں کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے اَب وہ خود ایسی ہی صورتِ حال سے دو چار ہیں کہ جیسے ان کے دِل پر نشتر چل رہے ہوں اِسی کو مکافات ِ عمل کہا جاتا ہے خدا کی بے آواز لاٹھی دوہری دَھار کے خنجر سے زیادہ کاری ضرب مارتی ہے ............ وہاں دیر تو ہے مگر اَندھیر نہیں ہے۔