ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
اپنے سے جوڑ کر ہی اِستخارہ کرتا ہے۔ لہٰذا وہ اُسی کی ذات کے لیے اِستخارہ ہوا مثلاً والدین جب اپنی اَولاد کی شادی کے سلسلہ میں اِستخارہ کریں گے تو اُن کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ مدِمقابل ہماری اَولاد کے لیے مناسب ہوگا کہ نہیں ؟ ہمیں اِس معاملہ میں کیا رویہ اِختیار کرنا چاہیے ، اِس کو قبول کرنا ہمارے حق میں بہتر ہوگا یا رَد کرنا ، اِس معاملہ میں خود اُن کی ذات تردّد کا شکار ہے اَور اِستخارہ تردّدکے لیے ہے دُوسرے نقطۂ نظر کے اعتبار سے اِستخارہ کرنے والا کسی نہ کسی درجہ میں بذاتِ خوداِس معاملہ سے متعلق اَوراُس میں متردد ہو، ایسا نہ ہوکہ کسی ایسے شخص سے جس کااِس معاملہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، اِستخارہ کروائے۔ موجودہ حالا ت کے تناظر میںاِس سلسلہ میں ایک مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ،وہ یہ ہے کہ لوگ فون یا دیگر مواصلاتی ذرائع سے کسی بزرگ یا مذہبی شخصیت سے اپنے کام کے متعلق اِستخارہ کی درخواست کرتے ہیںاَور وہ بزرگ یا صاحب اُس مسئلہ اَورکام کو سننے کے فوراً بعد ہی اپنا جواب مرحمت فرمادیتے ہیں جیسا کہQ-TV پاکستان میں یہ طریقہ رائج ہے، اِس کی دوکیفیتیں ہو سکتی ہیں : (ا) ایک تو یہ کہ بغیر کسی طلب ِخیر کی دُعا اَور توجہ اِلی اللہ فوراً ہی جواب دے دیا جائے تو اِس صورت کو اِستخارہ نہیں کہا جائیگا کیونکہ اِستخارہ اللہ سے اپنے حق میں بھلائی اَورخیر کے مقدر کرنے کو مانگنے کا نام ہے اَور یہاں اللہ سے مانگنا پایا ہی نہیں گیا تو اِس کو اِستخارہ کیسے کہا جائے گا ۔بلکہ اگر کوئی شخص اِس عمل کے بعد یہ عقیدہ اَوراِعتقاد رکھے کہ میرے معاملہ میں اِنتخاب اَورفیصلہ اللہ نے کیا ہے تویہ اِفتراء علی اللہ (اللہ پر بہتان باندھنا )ہونے کی وجہ سے ناجائز اَورحرام ہوگا چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب اللہ رب العزت سے خیر اَوربھلائی مانگے بغیر اپنے آبائو اَجداد کے متعین کردہ خیر وشر کے چند معیارات کی بنیاد پر اِس معاملہ کو فیصلہ کرلیتے اَور اِس کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے کہ مجھے میرے رب نے یہ کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (حجة اللہ البا لغہ ٢/١٩) (٢) دُوسری کیفیت یہ ہوسکتی ہے کہ جواب تو فوراً ہی دیا جاتاہو لیکن سائل کو کسی ایک متعینہ صورت کے منتخب کرنے کے متعلق جواب دینے سے قبل اللہ سے خیر اَوربھلائی کی دُعا مانگ لی جاتی ہو