ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
''عورت سے نکاح چار وجوہات کی بنا پر کیا جاتا ہے اُس کے مال اَور اُس کے حسب اَور اُس کے حسن اَور اُس کے دین کی وجہ سے ،تم دیندار کو اِختیار کر کے کامیاب ہوجاؤ۔ '' ایک اَور جگہ اِرشاد فرمایا : اَلدُّنْیَاکُلُّہَا مَتَاع وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ۔(مشکوة : ٣٠٨٣ ) ''ساری دُنیا زائل ہوجانے والا (عارضی) سامان ہے اَور دُنیا کی متاع میں بہترین( چیز ) صالحہ عورت ہے۔'' ایک اِرشاد میں فرمایا : اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہ وَخُلُقَہ فَزَوِّجُوْہُ اِنْ لَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَة فِی الْاَرْضِ وَفَسَاد عَرِیْض۔ (مشکوة شریف رقم الحدیث: ٣٠٩٠ ) ''جب ایسے آدمی کی طرف سے تمہارے ہاں پیغام ِ نکاح آئے کہ اُس کا دین اَور اُس کا اَخلاق تم کو بھاتا ہو تو اُس سے(لڑکی کی) شادی کرادو۔اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین پر بہت فتنہ اَور بڑا فساد پھیل جائے گا۔'' اِن اِرشادات میں جو ہدایات ذکر کی گئی ہیں اِن میں خیر ہی خیر ہے اَوراِن کی اِفادیت سے کوئی اِنکار نہیں کر سکتا ۔ کچھ ہدایات ایسی بھی ہیں کہ بعض حالات میں اَگر اُن پر عمل کر لیا جائے تو مستقبل میں کسی ناخوشگوار صورتِ حال کے پیش آنے کے اِمکانات کم سے کم ہو کر رشتۂ اَزدواج کا اِستحکام دائمی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آ تا ہے : جَائَ رَجَل اِلَی النَّبِیِّ ۖ فَقَالَ اِنِّیْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِّنَ الْاَنْصَارِ قَالَ : فَانْظُرْ اِلَیْھَا فَاِنَّ فِیْ اَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْئًا۔(مشکوة : رقم الحدیث ٣٠٩٨ )