ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے اُو پر چالیس چالیس راتیں گزر جاتی تھیں کہ نہ گھروں میں چراغ جلتا تھا اَور نہ آگ۔ کسی نے سوال کیاکہ پھر کس طرح گزران ہوتی تھی ،فرمایا کھجوروں اَور پانی پر۔'' چنانچہ شیخ الاسلام کے گھر میں کافی عرصہ تک تربوز کے چھلکے مسور کی دال کا پانی اَور کھجوروں پر ہی گزر اَوقات کی گئی ہے، یہ زُہدو تقوی کہ بالکل آنحضرت ۖ کے نقش قدم پر ہیں۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْم این سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندۂ یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں : عَلَامَةُ الزُّھْدِ ثَلَاثَة عَمَل بِلَا عِلَاقَةٍ وَ قَوْل بِلَا طَمَعٍ وَعِزّ بِلَا رِیَاسَةٍ۔ (اِحیاء العلوم ج ٤ ص ٢٣٧) ''زُہد کی علامتیں تین ہیں عمل بِلا کسی علاقہ کے ہو، قول بِلا لالچ ہو اَور عزت بِلاریاست کے ہو یعنی خداداد۔'' آئیے اِن تین علامتوں کی روشنی میں ذرا حضرت شیخ الاسلام کو دیکھیں، برسوں جنگ آزادی لڑیں ، تقریریں کیں لیکن کیا حکومت کے لالچ کی وجہ سے؟ ہر گز نہیں، پھر خداداد عزت ایسی کہ کسی بادشاہ کو بھی میسر نہ ہوگی۔ سب جانتے ہیں کہ والی ٔحجاز اِبن سعود، جواہر لال، صدر جمہوریہ راجندر پرشاد کس طرح آپ کے سامنے گردن جھکائے رہتے تھے۔ حضرت جس طرف نکل جاتے تھے بِلااِطلاع کے اسٹیشنوں پر پرے کے پرے موجود، غرض کہ ایسی عزت ومقبولیت عامہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ قبولیت اِس کو کہتے ہیں ، مقبول ایسے ہوتے ہیں عبِید سود کا اُن کے ، لقب ہے یوسفِ ثانی (جاری ہے)