ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
قانون کی ضرورت ہو وہ مقننہ پاس کرسکتی ہے ایسے قوانین سب اِسلام کے مطابق ہوں گے اَور اِن پر عمل باعث ِ اَجر بھی ہوگا۔ اِسلام کا نام لیتے ہی اُس کے خلاف باتیں کرڈالنا جائز نہیں ہے، ایسے اَشخاص کا یہ فرض ہے کہ وہ اِسے کسی عالم سے مِل کر حل کرے اَور اپنے اِیمان کا تحفظ کرے۔ اِسی دَوران ایک عالی دماغ لیڈر سے ملاقات ہوئی اُن کا خیال یہ تھا کہ اِسلام میں حکومت نہیں ہے کیونکہ اِسلام میں مقننہ نہیں ہوتی۔ غرض بہت سی باتیں اپنے ذہن سے ناتمام مطالعہ اَور اہل ِعلم سے رُجوع نہ کرنے کے باعث پیدا ہوجاتی ہیں یہ قابل ِ علاج ہیں جو مخلص ہیں وہ اِصلاح قبول کرتے ہیں مکمل جواب سے اُن کی تشفی ہوجاتی ہے۔ میری اِن گزارشات کا خلاصہ یہ ہوا کہ : ٭ اِسلامی نظامِ قانون تبدیل ہوگا تو آئے گا اَور یہاں (موجودہ) قانون کی جگہ فقہ حنفی پر مرتب قانون بذریعہ تراجم فورًا لایا جائے۔ ٭ اِس کے اَثرات اَمن و سکون کے علاوہ اِقتصادیات و معاشیات و اَخلاقیات پر فورًا مرتب ہوں گے۔ ٭ ہر شخص موجودہ اَنگریزی غلامانہ قانون کی رُو سے اپنے آپ کو باعزت ثابت کرے تو وہ باعزت تسلیم کیا جائے گا جبکہ اِسلام کی نظر میں اُس کے قانون کی رُو سے باعزت ہے۔ ٭ یہ قانون صوبوں سے بڑھ کر علاقوں تک کو اُن کے حقوق دِلاتا ہے اِس کا فوری نفاذ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ٭ یہ قانون مکمل ترین حالت میں موجود ہے یہ موجودہ اَنگریزی قانون سے بہت زیادہ مکمل ہے۔ ٭ یہ قانون اَنگریزوں کے جاری کردہ قوانین کی موجودگی میں آنا ممکن نہیں ہے نہ ہی اِسے اِس سے جوڑا جاسکتا ہے نہ وہ تھوڑا تھوڑا آسکتا ہے وہ جب آئے گا تو مکمل آئے گا آدھا تہائی نہیں۔ ٭ اِس قانون کی رُو سے حکمرانوں کے ذمّہ رعایا کو ہر طرح کی سہولت پہنچانا فرض ہوتا ہے جبکہ اَنگریز کے متروکہ نظریہ حکومت کی رُو سے جو اُس نے برصغیر میں اِختیار کیے رکھا حکومت عوام کو کھسوٹتی ہے اَور اُس کے پیش ِ نظر صرف اپنا خزانہ بھرے رکھنا ہوتا ہے وہ اِسی قسم کے قانون بناتی رہتی ہے۔